تیرہویں
فصل
سائل
اور تعبیر دینے والے کے آداب نگاہ رکھنے کے بیان میں
Sael aur tabeer dene wale ke aadab nigah rakhne ke bare mein
کرمانی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔ تعبیر بیان کرنے والے
میں یہ صفت ہونی چاہیئے کہ اُس کے ہر ایک کام میں ہوشیاری اور آہستگی ہو کہ سائل
کے سوال کے وقت اُس کے خواب کو اچھی طرح سُنے اور اُس کے دین اور مذہب اور اعتقاد پر واقفیّت
حاصل کرے اور اُس کے سچ اور جُھوٹ جانے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے
ارشاد فرمایا ہے :- اَصۡدُقُکُمۡ رَؤیاً اَصۡدُقُکُمۡ حَدِیۡثًا ( جو شخص خواب کے بارے میں راست گو ہے، وہ شخص بات میں بھی
راست گو ہے )۔
حضرت جعفر صادق رضی
اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہے کہ مردِ عاقل پر واجب ہے کہ طہارت کے ساتھ سو جائے
اور سوتےوقت خدا تعالےٰکو یاد کرے اور یہ دُعا پڑھے :- اللّٰهُمَّ سَلَّمۡتُ نَفْسِیۡ إِلَيْكَ
وَوَجَّهۡتُ وَجْھِیۡ إِلَيْكَ وَ فَوَّ ضۡتُ أَمْرِي اِلَيۡكَ والۡحَا دِثُ ظَهۡرِىۡ
اَليۡكَ لآ مَلۡجَاءَ مِنْكَ إِلاَّ إِلَيۡكَ تَبَارَكَتۡ رَبَّنَا وَ تَعَالَيۡتَ
اَنۡتَ الْغَنِیُّ وَنِحۡنُ الۡفُقۡرآءُ اَسْتَغْفِرُكَ وَاَتُوۡبُ إِلَيْكَ
اللَّهُمَّ آرِنَا الله وَ يَا صَادِقَةً عَارِيَةً صَالِحَةً غَيْرَ مَا سَدَةٍ
غَيْرَ تَغۡرِ بّةٍ رَافِعَةٍ غَيْرَ رَاضِيَةٍ۔ ترجمہ :۔ اے خُدا!مَیں اپنی جان تیری سپرد کرتا ہوں اور اپنا چہرہ تیری طرف
متوجہ کرتا ہوں اور اپنا امر تیرے سپرد کرتا ہوں اور اپنی کمر تیری طرف جھُکاتا
ہوں۔ تجھ سے پناہ تیرے ہی ساتھ ہے۔ اے ہمارے رب ! تُو بابرکت اور بلند ہے، تُو غنی
ہے اور ہم فقیر ہیں۔ میں تجھ سے معافی مانگتا ہوں اور تو بہ کرتا ہوں۔ اے خدا ! ہم
کو سچاّ خواب صاف نیک اور عمدہ بغیر کسی قسم کی خرابی اور چشم زخم کے رفعت اور عزّت
والا دکھا ۔"
دائیں کروٹ پر سو
جائے اور جب جاگے تو اسی طرح خدا تعالےٰ کو یاد کرے، اگر نیک خواب دیکھا ہے تو شُکر
کرے اور صدقہ دے اور اگر بُرا خواب دیکھا ہے تو اَعُوۡذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیۡطَانِ الرَّجِیۡمِ
ؕ( میں اللہ تعالے ٰکے ساتھ شیطانِ
مردود سے پناہ مانگتا ہوں)پڑھے اور قل ہو اللہ سارا پڑھے اور پھر بائیں طرف پھُونک
مارے اور کہے۔ اے خدا ! تو جانتا ہے اور مَیں نہیں جانتا ہوں ۔ اگر خیر ہے تو اس
خواب کی خیر مجھ کو پہنچا اور اگر بُرا ہے تو اس خواب کی بُرائی مجھ سے اور تمام
مسُلمانوں سے دُور کر ۔ یَا مُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الۡمُضۡطَرِّیۡنَ یَا لٰہِ الۡعَا لَمِیۡنَ وَیَا اَرۡ
حَمَ الرَّاحِمِیۡنَ (اے بے قراروں کی دُعا قبول کرنے والے! سب جہانوں کے معبُو د، سب سے بڑھ
کر رحم کرنے والے) ۔
سونے اور جاگنے کے وقت اور ہر ایک کام کے شروع میں یہ دُعا
پڑھے : - بِسۡمِ اللہِ
لاَ یَضُرُّاِسۡمِہٖ شَیِءٌ فِیۡ الاَرۡضِ وَلاَ فِی السَّمَآءِ وَھُوَ
السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ۔
(ترجمہ) اللہ تعا لےٰ کے نام سے شروع ہے۔ اس کے نام کے ساتھ کوئی چیز زمین اور
آسمان میں نقصان نہیں پہنچاتی ، وہ سب کچھ سننے اور جانے والا ہے)۔
جب نماز سے فارغ ہو تو اپنا وظیفہ قرآن مجید اور دُعا ئیں
پڑھے۔ پھر اُٹھے اور تعبیر بیان کرنے والے کے پا س جائے اور اچھا وقت ہونا چاہیئے
اور خواب بیان کرتے وقت کمی بیشی نہ کرے۔
ابومسلم رضی اللہ
تعالےٰ عنہ عطا بن جناب سے روایت کرتے ہیں کہ محمّد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ نے
فرمایا ہے کہ جو شخص خواب میں منبر پر ہے۔ اُس کی تاویل یہ ہے کہ اگر وہ شخص نیک
ہے تو شرف اور بزرگی پائے گا اور اگروہ بُرا ہے تو پھا نسی پر لٹکایا جائے گا۔
عدید الحدیث میں ہے کہ احمد بن سعد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم سے دریافت
کیا کہ مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میرے گھر کی چھت کا ستون مُجھ پر ٹوٹا ہُوا
ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تیرا شوہر سفر سے آئے گا۔ دُوسری نے بھی یہی خواب دیکھا اور
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالےٰ عنہ سے تعبیر پُوچھی ۔ آپؐ نے فرمایا کہ تیرا شوہر
مرے گا۔ دونوں عورتوں کا خواب واحد تھا۔ لیکن وقت کے تعبیر سے سےتعبیر مختلف ہوئی۔
حضرت ابو حاتم اصمعی
سے روایت کرتے ہیں کہ اشعری نے پوچھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گیہوں کو جَو
کے بدلے بیچتا ہوں ۔ آپ نے جواب دیا کہ تم قرآن مجید کو شعر سے بدلتے ہو۔ آدمی کی
حالت کی تبدیلی سے گہیوں اور جَو اپنی اصلیت سے بدل گئے۔ اگر کوئی یہی خواب دیکھے
تو اصمعی کے ساتھی کی بات یاد رکھے۔
کرمانی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے جو شخص فصل بہار میں
خواب دیکھے ، نیک ہے۔ لیکن اِس کی تاویل دیر کے بعد ظاہر ہو گی اور گرمی کے موسم
کے خواب کی تاویل بہت جلدی ظاہر ہوتی ہے اور جو شخص خزاں کی فصل میں خواب دیکھے۔ اِس
کی تاویل درست نہ ہو گی۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ تعالےٰ عنہ سے دریافت کیا کہ مجھے خواب میں ایک درخت کے ستّرپتے شمار کر کے دیئے
گئے ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ تجھ پرستّر لکڑیاں پڑیں
گی۔ اور اسی ہفتے میں اُس پر ستّر چھڑیاں ماری گئیں۔ پھر اُس شخص نے دوسرے سال میں
وہی خواب ستّرپتوں والا دیکھا اور حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے تعبیر دریافت کی۔
آپ نے فرمایا کہ تجھے ستّر ہزار درہم ملیں گے۔ اُس شخص نے عرض کی ۔
یا امیرالمومنین! گذشتہ سال میں نے یہی خواب دیکھا تھا اور اُس کی
تاویل ستر چوب تھی اور مَیں نے اس سال بھی یہی خواب دیکھا ہے اور اس کی تاویل ستر
ہزار درہم ہے۔ آپ مجھ کو اس تاویل کے فرق کا پتہ دیں ۔ آپ نے فرمایا کہ گذشتہ سال
تُو نے خواب فصل ِخزاں میں دیکھا تھا۔ اُس وقت سب درخت خشک تھے اور پتّے گراتے
تھے۔ اُس کی تاویل وہی تھی اور اس سال موسم ِبہار ہے اور درختوں کا رُخ ترقی کی
طرف ہے۔ اس کی تاویل یہی ہے کہ ۔ پھر اس خواب دیکھنےوالے نے ستّر ہزار درہم پائے ۔
حضرت دانیال علیہ السّلام نے فرمایا ہے کہ جُو شخص صُبح سے
نیم روزتک خواب کی تعبیر دریافت کرے ، اس کی تاویل اقبال اورنیکی پر ہے اور زوال
کے بعد رات تک شرّ اور فسا د کی دلیل ہے
اورخواب کی تعبیر روزِا برِ برف باراں اور آفتاب کے طلوع اور غروب کے وقت دریافت
نہ کرنی چاہیئے۔
جابر مغربی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ سب خوابوں میں سے سچّا
خواب وہ ہے جو وقت سحر سے آفتاب کے تک آئے ۔ یا آفتاب کی برابری پر خواب نیک اور
راست اور درست آتا ہے اور تاویل خواب۔ درختوں کا کِھلنا۔ میوؤں کا پکنا ، بڑے اچھے
خواب ہیں اوران کی تاویل درست ہوتی ہے اور جو خواب سردی کے دنوں میں دیکھا جائےاُ
س کی تاویل کا حکم کمزور ہوتا ہے۔ جاڑے میں بادو باراں ہوتا ہےاور بہار میں جہان خوش و خُرم ہوتا ہے۔ بہر حال پر خواب کی
تعبیر مطابق حال و صورت ووقت علیٰحدہ علیٰحدہ ہوتی ہے۔
کتا ب کا نام
تعبیرالرؤیاء
مصنف
علا مہ ابن سیرین
اُردو ترجمہ
ابو القاسم دلاوری
ناشر
فرید بُکڈپو (پرائیویٹ )
لمٹیڈ
0 Comments