سرزمین یاس-ساحر لدھیانوی
Sarzameen e yaas by Sahir Ludhianvi
جینےسےدل
بیزارہے
ہرسانس
اِک آزارہے
کتنی
حزیں ہےزندگی
اندوہگیں
ہے زندگی
وہ
بزمِ احبابِ وطن
وہ
ہم نوایانِ سخن
آتےہیں
جس دم یاداب
کرتےہیں
دل ناشاد اب
گزری
ہوئی رنگینیاں
کھوئی
ہوئی دلچسپیاں
پہر
وں رُلاتی ہیں مجھے
اکثرستاتی
ہیں مجھے
وہ
زمزمےوہ چہچہے
وہ
روح افزاقہقہے
جب
دل کوموت آئی نہ تھی
یوں
بےحسی چھائی نہ تھی
کالج
کی رنگیں وادیاں
وہ
دل نشیں آبادیاں
وہ
نازٹینان وطن
زہرہ
جنینانِ وطن
جن
میں سےاک رنگین قبا
آتش
نفس،آتش نوا
کرکےمجت
آشنا
رنگِ
عقیدت آشنا
میرے
دلِ ناکام کو
خوں
گشتٔہ،آلام کو
داغ
جدائی لےگئی
ساری
خدائی لےگئی
ان
ساعتوں کی یاد میں
ان
راحتوں کی یاد میں
مغموم
سارہتاہوں میں
غم
کی کسک سہتاہوں میں
سنتاہوں
جب احباب سے
قصےغِم
ایام کے
بیتاہوجاتاہوں
میں
آہوں
میں کھوجاتاہوں میں
پھروہ
عزیز واقربا
جوتوڑکرعہدوفا
احباب
سےمنہ موڑکر
دنیاسےرشتہ
توڑکر
حِدّاُ
فق سےاُس طرف
رنگ
شفق سےاُس طرف
اک
وادی خاموش کی
اک
عالمِ بے ہوش کی
گہرائیوں
میں سوگئے
تاریکیوں
میں کھوگئے
ان
کاتصور ناگہاں
لیتاہےدل
میں چٹکیاں
اور
خوں رلاتاہےمجھے
بے
کل بناتا ہے مجھے
وہ
گاؤں کی ہمجولیاں
مفلوک
دہقاں زادیاں
جو
دستِ فرطِ یاس سے
اوریورشِ
افلاس سے
عصمت
لٹاکررہ گئیں
خودکوگنوا
کررہ گئیں
غمگیں
جوانی بن گئیں
رسوا
کہانی بن گئیں
ان
سےکبھی گلیوں میں اب
ہوتا
ہوں میں دوچارجب
نظریں
جھکا لیتاہوں میں
خود
کوچھپالیتا ہوں میں
کتنی
حزیں ہے زندگی
اندد
ہکیں ہے زندگی
2 Comments
Iska tajziýa mil sakta hai ?
ReplyDeleteانشاء اللہ کوشش کرتے ہیں
ReplyDelete