Apne Hamsaye Se- Kanhaiya Lal Kapoor|اپنے ہمسایے سے-کنہیا لال کپور

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Apne Hamsaye Se- Kanhaiya Lal Kapoor|اپنے ہمسایے سے-کنہیا لال کپور

اپنے ہمسایے سے-کنہیا لال کپور

Apne Hamsaye Se by Kanhaiya Lal Kapoor

 

                        آ ؤ میاں سمجھوتا کر لیں ۔ آ ج تک ہم نے ایک دوسرے پر رعب جمانے کے لیے ایسی باتیں اور حر کتیں کر تے رہے ہیں جنھیں فضول ہی نہیں ،مضحکہ خیر کہا جا سکتا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے،آ خر ہم کب تک ایک دوسرے کو محض مرعوب کرنے کے لیے اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کر تے رہیں گے یا ھوٹ بول کر اپنی عا قبت خراب کریں گے ؟ کیوں نہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ حم، دونوں میں سے کو ئی بھی رئیس ابنِ رئیس نہیں بلکہ تم ایک معمولی تاجرہو اور میں ایک معمولی معلم ہوں اور دونوں پچھلے پانچ برس سے ایک دوسرےکے دھوکہ دینے کی بیکار کو شش کر رہے ہیں ۔ چنانچہ اگر تم کہتے ہو کہ تمھارا بھائی دہلی میں مجسڑیٹ ہے و میں تمھیں مطلع کر تا ہوں ، میرا بھائی الہٰ آ باد ہائی کورٹ کا جج ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا بھائی کسی مجسٹرسٹ کا چپراسی ہے اور میرا کو ئی بھائی ہی نہیں کیونکہ میں اپنے والدین کا ایکلوتا بیٹا ہوں ۔

            دوسال ہوئے تم نے کہا تھا ، میں بیوی اور بچوں کے ساتھ کسی صحت افزا مقام غالباً نینی تال جارہاہوں ۔ اور میں نے تمھیں بتایا تھا، میں بھی مع اہل وعیال اوٹا کمنڈ جارہاہوں۔ لیکن تم نینی تال گئے اور نہ میں اوٹا کمنڈ ۔تم نے وہا ں نہ جانے کا یہ بہانہ ڈھونڈا کے یک لخت تمھاری بیوی کی طبیعت خراب ہوگئی اور ڈاکٹر نے اُسے گھر پر مکمل آ رام کرنے کے لیے کہا ہے۔ میں نے اوٹا کمنڈ نہ جانے کی یہ وجہ بتائی کہ میرے سالے کی شادی ہے اور مجھے اُس کا انتظام کرنا ہے۔ لطف یہ ہے کہ مجھے معلوم تھا، تمھاری بیوی بھلی چنگی ہے اور تمھیں پتا تھا کہ میرے سالے کی شادی تو کیا ، ابھی سگائی تک نہیں ہو ئی ۔ پچھلے دنوں جب تم نے مجھ پر رعب جمانے کے لیے قسطوں پر ایک فریج خریدا تو میری بیوی میرے سر ہو گئی کہ ہمارے گھر میں فریج ضرور ہو نا چا ہیے۔ چنانچہ نہ چا ہتے ہو ئے بھی مجھے فریج خریدنا پڑا ۔اب سنا کہ تم قسطوں پر ٹیلی وِ ژن کی قسط بھی ادا کرنی پڑی تو میرا تو دیوالہ ہی پٹ جائے گا ۔میں جانتا ہوں ،کم وبیش تمھارا بھی یہی حال ہے ۔یعنی بقول شاعر

                                                تم مسکرا رہے ہو مگر جانتا ہوں میں

                                                بہتر تمھارا حال نہیں میرے ہال سے

            یہ دوسری بات ہے کہ تم کھلے بندوق کبھی اس بات کا اعتراف نہیں کرو گے کہ ہم دانوں ایک ہی نا ؤ میں سوار ہیں ۔

            کبھی کبھی تم میرا قا فیہ تنگ کر نے کی خاطر اپنی بیوی کے لیے قیمتی ساڑی یا زیور لے آ تا ہو۔ اُسے پہن کر جب تمھاری بیوی شیخی بگھارتی ہے،یہ ساڑی پانچ سو میں آ ئی ہے۔یہ زیور داہزار روپے کاہے ،تو میری بیوی کے سینے پر سانپ لا ٹنے لگتے ہیں اور وہ اُسی دن فرمائش کرنے لگتی ہے کہ اس سے قیمتی ساڑی یا زیور لائیے، نہیں تو مجھے کھانا ہضم نہیں ہو گا اور نہ ہی نیند آئے گی۔

            گزشتہ اتوار کو تمھاری بیوی نے اپنے بچے کو جنم دن پر پچیس عورتوں کو مدعو کیا۔ اب میری بیوی کا تقاضا ہے کہ دو ہفتوں کے بعد جب میں اپنے بچے کا جنم دن مناؤں گی تو کم از کم پچاس عورتوں کو دعوت دوں گی ورنہ ہمسائی کی نظر سے گر جا ؤں گی۔

ہربات میں ایک دوسرے کو نیچادِکھانے کی تمنایہ رنگ لائی ہے  کہ اب بیماریوں کے معاملے میں بھی ہم ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرنے لگےہیں ۔ چنانچہ  میر ی بیوی کہتی ہے ، کل رات مُنّے کو اایک سوچارڈ گر ی بخارتھا ۔ بیچاراساری رات ہائے ہائے کرتا رہا ۔ تو تمھا ری بیوی فوراَمنہ بناکر جواب د یتی ہے ، ایک سوچارڈگر ی بخا ر بھی کو ئی بخار ہوتاہے ؟ تین دن ہوئے ہماری بڑی منّی بیمار پڑ گئی ، تھرما میڑ لگایا تو معلوم ہو اایک سو چھے ڈگر ی بخارہے ۔ وہ چھے گھنٹے بے ہو ش پڑ ی ر ہی لیکن میں ذرابھی نہیں گھبر ائی ۔ ڈاکڑ تک کو فون نہیں کیا ۔ سو چا، بخارہی تو ہے ۔ خود بخوداُتر جائے گا ۔

ایک دن تمھاری بیوی اور میری بیوی اس موضوع پر بحث کر رہی تھیں کہ سوتے وقت تم زیادہ زورسے خراٹے لیتے ہویا میں ۔ تمھاری بیوی کہہ ر ہی تھی ، وہ جب خراٹے لیتے ہیں تواْن کے خراٹوں کی آوازایک فر لا نگ سے سنی جا سکتی ہے ۔میری بیوی اسے بتا رہی تھی،ہمارے صاحب جب خراٹے لیتے ہیں تو اُن کے خراٹوں کی آ واز سولِ ہسپتال میں سنائی دیتی ہے۔ کئی بار ڈاکڑہمارے گھر یہ پوچھنے کے لیے آتے ہیں کہ خیر یت تو ہے ؟

ہماری بیویوں کی دیکھادیکھی ہمارے بچے بھی لاف زنی کی عادت کا شکارہو گئے ہیں ۔ اگر تمھارابچہ کہتا ہے ، مجھے ہر روزدو روپے جیب خرچ کے لیے ملتے  ہیں ،تو میرا بچہ اس کا مذاق اُڑاتے ہو ئے جواب دیتا ہے،اونہہ،صرف دوروپے !ہمیں تو ہر روز پانچ رو پے ملتے ہیں۔ اگرتمھارابڑ ا لڑکا کہتاہے ، میر ابچہ اس کامذ اق اْڑاتے ہو ئے جواب دیتاہے ، اونہہ ، صرف دوروپے ! ہمیں توہر روزپانچ روپے ملتے ہیں ۔ اگر تمھارابڑالڑکا کہتا ہے ، میر ے باپ نے ایک دفعہ مٹی کا تیل بلیک مار کیٹ میں فروخت کر کے سات ہزارروپے کمائے تھے ، تومیر الڑ کا اس سے بازی لے جانے کی نیت سے اُسے بتاتا ہے : میرے ڈیڈی نے ایک مرتبہ اسکول کے فنڈسے دس ہزارروپے اُڑالیے تھے ۔

صورت حال انی نازک ہو گئی ہے کہ ڈرلگتا ہے کہ کسی دن ہم دونوں اپنے بچوں یا بیویوں کے بیانات کی بنا پر گرفتار نہ کر لیے جائیں اِس لیے آؤ ،آج سے سمجھوتا کرلیں کہ آ ئندہ نہ ہم اور نہ ہماری بیویاں اور نہ بچے ،ایک دوسرے پر رعب ڈالنے کی کوشش کریں گے بلکہ بڑی شرافت کے ساتھ تسلیم کرلیں گے کہ ہم دونوں معمولی حیثیت کے آ دمی ہیں اور اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم رئیس ہیں تو ایک دوسرے کو نہیں صرف اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔

 

 


Post a Comment

0 Comments