Bhola by Rajinder Singh Bedi|بھولا-راجندر سنگھ بیدی

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Bhola by Rajinder Singh Bedi|بھولا-راجندر سنگھ بیدی

بھولا-راجندر سنگھ بیدی 

Bhola by Rajinder Singh Bedi


 میں نے مایاکو پتھرکے ایک کوزے میں مکھن رکھتے دیکھا۔ چھا چھ کی کھٹاس کو دورکرنے کے لیے مایاکوزے میں پڑے ہو ئے مکھن کو کنویں کے صاف پانی سے کئی باردھویا ۔ اس طرح مکھن کے جمع  کرنے کی کوئی خاص وجہ تھی ۔ ایسی بات عموماًمایاکے کسی عزیزکی آمدکاپتادیتی تھی ۔ ہاں ، اب مجھے یاد آیا،دودن کے بعدمایاکابھائی اپنی بیوہ بہن سے راکھی بند ھو انے کے لیے آنے والاتھا۔ یوں تو اکثربہنیں بھا ئیو ں کے ہا ں جاکر انھیں راکھی باندھتی ہیں مگر مایاکابھائی اپنی بہن اور بھانجے سے ملنے کے لیےخود ہی آجایاکر تا تھااورراکھی بندھوالیاکرتاتھا۔ راکھی بندھو اکر وہ اپنی بیوہ بہن کو یقین دلاتاکہ جب تک اس کابھائی زندہ ہےاس کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے کند ھوں پرلیتاہے ۔

ننھے بھولے نے میر ے اس خیال کی تصد یق کردی ۔ گناچوٗ ستے ہو ئے اس نے کہا، بابا ! پرسوں ماموں جی آئیں گے نا ؟ میں نے اپنے پوتے کوپیارسے گودمیں اُٹھالیااور مسکر اتے ہو ئے کہا ، بھولے ! تیرے ماموں جی تیر ی ماتاجی کے کیاہوتے ہیں؟ بھولے نے کچھ تا مّل کے بعدجواب دیا، ماموں جی ۔

مایا کھلکھلا کرہنسنےلگی ۔ میں اپنی بہوکے اس طرح کُھل کر ہنسنے پر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا ۔ مایابیوہ تھی اورسماج اسے اچھے کپڑ ے پہننے اور خوشی کی بات میں حصہ لینے سے بھی روکتاتھا ۔ میں نے بارہامایا کواچھے کپڑ ے پہننے ، ہنسنے کھیلنے کی تلقین کر تے ہو ئے سماج کی پر وانہ کر نے لیے کہاتھامگر مایانے ازخوداپنے آپ کو سماج کے روح فرسااحکا م کے تا بع کر لیاتھا ۔ اس نے اپنے تمام اچھے کپڑ ے اور زیورات کی پٹاری ایک صندوق میں مقفل کر کے چابی ایک جو ہڑ میں پھینک دی تھی ۔                        

مایانے اپنے لعل کو پیارسے پاس بلاتے ہو ئے کہا، بھولے ! تم ننھی کے کیاہوتے ہو ؟

بھائی ، بھولے نے جواب دیا ۔

اسی طر ح تیرے ماموں جی میرے بھائی ہیں ۔

بھولایہ بات نہ سمجھ سکاکہ ایک ہی شخص کس طرح ایک ہی وقت میں کسی کابھائی اور کسی کا ماموں ہو سکتاہے ۔ وہ تو اب تک یہی سمجھتاآیاتھاکہ اس کے ماموں جان اس کے باباجی کے بھی ماموں جی ہیں ۔

مجھے دوپہر کواپنے گھرسے چھے میل دوراپنے کھیتوں میں ہل پہنچانے تھے ۔ بوڑھا جسم ، اس پر مصیبتوں کا ماراہوا ۔ بیٹے کی موت نے اُمید کو یاس میں تبدیل کر کے کمرتوڑدی تھی ۔ اب میں بھولے کے سہارے ہی جیتاتھا۔

رات کو میں تکان کی وجہ سے بستر پرلیٹتے ہی اونگھنے لگا ۔ ذراتو قّف کے بعدمایانے مجھے دودھ پینے کے لیے آوازدی ۔ میں نے اسے سیکڑ وں دعائیں دیتے ہو ئے کہا ، مجھ بو ڑ ھے کی اتنی پر وانہ کیا کر و ، بیٹا ۔

بھولا ابھی تک نہ سو یاتھا ۔ اس نے ایک چھلانگ لگائی اور میر ے پیٹ پر چڑ ھ گیا۔ بولا، باباجی ! آپ آج کہانی نہیں سنائیں گے کیا ؟ نہیں بیٹا۔ میں نے کہا ، میں آج بہت تھک گیا ہو ں ۔ کل دوپہر کو تمھیں سناؤں گا ۔

بھولے نے رو ٹھتے ہو ئے جواب دیا ، میں تمھارا بھولا نہیں بابا ۔میں ماتا جی کا بھولا ہوں۔

بھولا بھی جانتا تھا کہ میں نے اس کی ایسی بات کبھی برداشت نہیں کی ۔میں ہمیشہ اس سے یہی سننے کا عادی تھاکہ  ُ  بھو لا بابا جی کا ہے اور ماتاجی کا نہیں ۔ مگر اس دن ہلوں کو کند ھے پر اُٹھا کرچھے میل تک لے جانے اور  پیدل ہی واپس آنے کی وجہ سے میں بہت تھک گیا تھا ۔ اس غیرمعمولی تھکن کے باعث میں نے بھولے کی وہ بات بھی بر داشت کی اور او نگھتے اونگھتے سوگیا ۔

صبح کے وقت اس نے پھر میری گو دمیں آنے سے انکار کر دیا اور بولا ، میں نہیں آؤں گا تمھا رے پا س ، بابا ۔

 کیوں بھولے ؟

بھولا باباجی کانہیں ...بھولا ماتاجی کاہے ۔

میں نے بھو لے کو مٹھا ئی کے لا لچ سے منا یا اور چند ہی لمات میں وہ باباجی کا بھولا بن گیا اور میر ی گود میں آگیا اور اپنی ننھی ٹا نگوں کے گردمیرے جسم سے لپٹے ہو ئے کمبل کو لپیٹنے لگا ۔ مایا نے پاؤ  بھر مکھن  نکالااور اسے کو ز ے میں ڈال کر کنویں کے صاف پانی سے اس کی کھٹاس کو دھو ڈالا ۔ اب مایا نے اپنے بھائی کے لیے سیرکے قریب مکھن تیار کر لیاتھا ۔ میں بہن بھائی کے اس پیار کے جذ بے پردل ہی دل میں خوش ہو رہاتھا۔  میں نے دل میں کہا ، عورت کا دل مجت کا ایک سمند ر ہو تاہے ۔ ماں باپ ، بھائی بہن ، خاوند بچے ، سب سے بہت ہی پیار کرتی ہے اور اتناکر نے پر بھی اس کا پیار ختم نہیں ہوتا ۔ ایک دل کے ہو تے ہو ئے بھی وہ سب کو اپنا دل دے دیتی ہے ۔ بھولے نے دونوں ہاتھ میرے گالوں کی جھر یو ں پر ر کھے اور کہا، بابا ، تمھیں اپناوعدہ یادےنا ؟

کس بات کا ...بیٹا؟

تمھیں آج دوپہرکو مجھے کہانی  سنانی ہے ۔

باں بیٹا!  میں نے اس کا منہ چوٗ متے ہو ئے کہا۔

یہ تو بھولاہی جانتا ہو گاکہ اس نے دوپہر کے آنے کا کتنا ا نتطارکیا ۔ بھو لے کواس بات کا علم تھاکہ بابا جی کے کہانی سنانے کا وقت وہی ہو تا ہے جب وہ کھانا کھاکر اس پلنگ پرجا لیٹتے ہیں جس پر وہ بابا جی یاماتا جی کی مد د کے بغیر نہیں چڑھ سکتا۔ چنا نچہ وقت سے آدھا گھنٹا پیشتر ہی اس نے کھانا نکلوانے پر اصر ارشر وع کر دیا ، میر ے کھانے کے لیے نہیں بلکہ اپنے کہانی سننے کے چاؤسے ۔

میں نے معمول سے آدھا گھنٹاپہلے کھانا کھایا ۔ ابھی میں نے آخری نو الہ تو ڑ اہی تھا کہ پٹو اری نے دروازے پر دستک دی۔ اس نے کہا کہ خانقاہ والے کنو یں پر آ پ کی زمین کو نا پنے کے لیے مجھے آج ہی فر صت مل سکتی ہے ، پھر نہیں ۔

دالان کی طر ف نظردوڑ ائی تو میں نے دیکھا ، بھو لا چار وں طر ف گھو م کر بستر بچھارہا تھا ۔بستر بچھانے کے بعداس نے ایک بڑ اتکیہ بھی ایک طرف رکھ دیااور خودپائینتی میں پاؤں  اَڑاکر چارپائی پرچڑ ھنے کی کوشش کر نے لگا ۔

میں نےپٹواری سے کہاکہ تم خانقاہ والے کنو یں کو چلو اور میں تمھا رے پیچھے     پیچھےآجا ؤں گا  ۔جب بھولے نے دیکھاکہ میں باہرجانے کے لیے تیار ہو ں تو اس کا چہر ہ مد ھم پڑ گیا۔ مایا نے کہا ، باباجی ،اتنی بھی کیاجلدی ہے ؟ خانقاہ والاکنواں کہیں بھاگاتو نہیں جاتا ۔ آپ کم سے کم آرام تو کرلیں ۔

 اوں ہو ں ،میں نے زیر لب کہا ۔ پٹواری چلاگیاتوپھر یہ کا م اد ھر نہ ہو سکے گا ۔

مایاخاموش ہو گئی ۔ بھو لا منہ بسورنے لگا ۔ اس کی آنکھیں نمناک ہو گئیں ۔ اس نے کہا ، بابا! میری کہانی... میر ی کہانی  ...

بھولے... میر ے بچے ! میں نے ٹالتے ہوئے کہا ۔ دن کو کہا نی سنا نے سے مسا فرراستہ بھول جاتے ہیں ۔

راستہ بھول جاتے ہیں؟بھولے نے ساچتے ہوئے کہا،بابا!تم جھوٹ بولتے ہو...ہمیں باباجی کا بھولا نہیں بننا۔

اب جبکہ میں تھکا ہو ابھی نہیں تھااور پندرہ بیسں منٹ آرام کے لیے نکا ل سکتا تھا ، بھو لے کی اس بات کو آسانی سےکس طر ح برداشت کر لیتا۔ میں نے اپنے شانے سے چادر اُتا ر کر چار پائی کی پائنیتی پرر کھی اورپلنگ پر لیٹتے ہو ئے بھو لاسے کہا ، اب کو ئی مسافر راستہ کھوبیٹھےتو اس کے تم ذمے دارہو گے ۔ اور میں نے  بھو لے کو دوپہر کے وقت سات شہزادوں اور سات شہزادیوں کی ایک کہانی سنائی ۔ بھو لا ہمیشہ اس کہا نی کو پسند کرتاتھا جس کے آخر میں شہز ادے اور شہز ادی کی شادی ہو جا ئے۔ مگرمیں نے اس روزبھولے کے منہ پر خوشی کی کوئی علا مت نہ د یکھی بلکہ وہ افسر دہ منہ بنائےہلکے ہلکے کا نپتارہا ۔

اس خیال سے کہ پٹواری خانقاہ والے کنو یں پر انتظار کر تے کرتے تھک کر کہیں اپنے گاؤں کا رُخ نہ کر لے ، میں جلدی  جلدی اپنے نئے جوتے میں دیتی ہو ئی ایڑ ی کی وجہ سے لنگڑ اتاہو ا بھاگا ۔

شام کو جب میں واپس آیا اور جو ں ہی میں نے دہلیز میں قد م رکھا ،بھو لے نے کہا، بابا آج ماموں             جی آئیں گے نا ؟

 پھر کیا ہو ابھولے ؟ میں نے پو چھا ۔

ماموں جی اگن بوٹ لائیں گے ۔ماموں جی کے سر پر مکئی کے بھٹُّو ں کا ڈھیر ہو گا نا ، بابا... ہمارے تو مکئی ہو تی ہی نہیں بابا ۔ اور تو اوروہ ایسی مٹھائی لائیں گے جو آپ نے خو اب میں بھی نہ دیکھی ہو گی ۔

میں حیران تھااور سوچ رہاتھا کہ کس خوبی سےخواب میں بھی نہ دیکھی ہو گی ،، کے الفاظ سات شہز ادوں والی کہانی کے بیان میں سے اس نے یا درکھے تھے ۔

جیتارہ میں نے دعایتے ہو ئے کہا ، بہت ذہین لڑکا ہو اور ہمارانا م رو شن کر ے گا ۔

شام ہو تے  ہی بھولا درواز ے میں جابیٹھاتا کہ ما موں جی کی شکل دیکھتے ہی اندر کی طرف دوڑے اورپہلے اپنی ماتا جی کو اورپھر مجھے ، اپنےماموں جی کے آنے خبر سنائے ۔

دِیو ں کو دِ یا سلا ئی دِ کھائی گئی ۔ جو ں جو ں رات کا اند ھیر اگہر اہو تا جا تا دِ یو ں کی روشنی زیا دہ ہو تی جا تی ۔ تب متفکر انہ لہجےمیں مایا نے کہا ، باباجی... بھیا ابھی تک نہیں آئے ۔

ممکن ہے کو ئی فروری کا م آپڑ اہو ۔ راکھی کے رو پے ڈاک میں بھیج دیں گے ۔

مگر راکھی ؟

ہاں راکھی کی کہو ۔ انھیں اب تک تو آجا نا چا ہیے تھا ۔                                         

میں نے بھولے کو زبر دستی دروازےکی دہلیز پر سے اْٹھا یا ۔ بھو لے نے اپنی ما تا سے بھی زیا دہ متفکر انہ لہجے میں کیا ، ماتا جی... ماموں جی کیوں نہیں آئے ؟

مایا نے بھو لے کوگودمیں اُٹھا تے ہو ئے اور پیا ر کر تے ہو ئے کہا ، شاید صبح کو آجا ئیں تیر ے مامو ں جی...  میر ے بھولے ۔

پھربھو لا کچھ دیربعد سوگیا ۔

مایا کا بھائی ابھی تک نہیں آیا تھا ۔ میں ستاروں کی طر ف دیکھتے د یکھتے  او نگھنے لگا ۔ یکا یک مایا کی آواز سے میر ی نیندکھلی  ۔ وہ دودھ کا کٹو را لیے کھٹری تھی ۔

بیٹی تمھیں اس سیواکا پھل ملے بغیر نہ ر ہے گا ۔

تبھی میرے پہلو میں بچھی ہو ئی چار پائی پر سے بھو لا آنکھیں ملتے ہو ئے اُٹھا ۔ اُٹھتے ہی اس نے پو چھا ، بابا... ما مو ں جی ابھی تک کیو ں نہیں آئے ؟

آجا ئیں گے بیٹا ! سو جا ؤ ۔ وہ صبح سو یر ے آجا ئیں گے ۔

اپنے بیٹے کو اپنے مامو ں کے اس قدربیتا  ب دیکھ کر مایا بھی کچھ بیتاب سی ہو گئی ۔ عین اسی طر ح جس طرح ایک شمع سے دو سر ی  شمع رو شن ہو جاتی ہے۔ کچھ دیر کے بعد وہ بھو لے کو لِٹا  کر تھپکنے لگی ۔ مایا کی آنکھو ں میں نیند آنے لگی ۔ دن بھر کے کام کاج کی تھکن سے مایا گہر ی نیند سو تی تھی ۔ میں نے مایا کو سو جانے کے لیے کہا اور بھو لے کو اپنے پا س لِٹالیا ۔

بتّی جلتی ر ہنے دو ، صر ف دھیمی کر دو ۔ میلے کی وجہ سے بہت سے چو ر چکا ر ادھر اد ھر گھو م رہے ہیں ۔ میں نے مایا سے کہا ۔

سب سے بڑ ی بات یہ تھی کہ اس دفعہ میلے پر جو لو گ آ ئے تھے ، ان میں ایسے آدمی بھی تھے جو کہ بچوں کو اغواکر کے لے جا تے تھے ۔ پڑوس کے ایک گا ؤ ں میں دوایک ایسی واردا تیں ہو ئی تھیں اسی لیے میں نے بھو لے کو اپنا پا س لٹالیا تھا ۔ میں نے دیکھا، بھو لاجا گ رہا ہے ۔ اس کے بعد میر ی آنکھ لگ گئی ۔

تھو ڑ ی دیر کے بعد جب میر ی آنکھ کھُلی  تو میں نے بتّی کو دیو ار پر نہ دیکھا ۔ گھبر اکر ہا تھ پسا راتو بھو لا بھی بستر پر نہ تھا ۔ میں نے  اند ھو ں کی طر ح دیوارسے ٹکر اتے اور ٹھوکر یں کھاتے ہو ئے تمام چار پا ئیو ں پر دیکھ ڈالا ۔ مایا کو بھی جگا یا ۔ گھر کا کو نا کونا چھان مارا ، بھولا کہیں نہ تھا ۔

مایا ...ہم لُٹ گئے ۔ میں نے اپنا سر پیٹتےہو ئے کہا ۔

مایا ماں تھی ۔ اس کا کلیجا جس طر ح شق ہو ا، یہ کو ئی اسی سے پو چھے ۔ اپنا سہا گ لٹنے پر اس نے اتنے با ل نہ نو چے تھے جتنے کہ

اس وقت نو چے  ۔ وہ دیو انو ں کی طر ح چینخیں   ما ررہی تھی ۔ پا س پڑوس کی عو ر تیں شورسن کر جمع ہو گئیں اور بھو لے کی گمشد گی کی خبر سن کر رو نے پیٹنے لگیں ۔

آج میں نے میلے کے ایک بازی گر کو اپنے  گھر کے اند رگھو ر تے ہو ے دیکھا تھا   مگر میں نے پر وا نہیں کی تھی  ۔ میں نے دعا ئیں کیں ، منّتیں مانیں کہ بھو لا مل جا ئے ۔ وہی ہمارے  اند ھیر کا اُجا لا تھا ۔ اسی کے دم سے میں اور مایا جیتے تھے ۔ اسی کی آس سے ہم اُڑ ے پھر تے تھے  ۔ وہ ہی ہمار ی آنکھوں کی بینا ئی ، وہی ہمارے جسم کی تو انا ئی تھا ۔ اس کے بغیر ہم کچھ نہ تھے ۔

میں نے گھو م کر دیکھا ، مایا بے ہو ش ہو گئی تھی ۔ اس کے ہا تھ اندر کی طر ف مُڑ گئے تھے ،  آنکھیں پتھر اگئی تھیں اور عور تیں اس کی ناک بند کر کے ایک چمچے سے اس کے دانت کھو لنے کی کو شش کر رہی تھیں ۔

ایک لمحے کے لیے میں بھولے کو بھی بھول گیا ۔ میرے پاؤں تلے کی زمین کھسک گئی ۔ ایک ساتھ گھر کے دو لو گ جب د یکھتے  دیکھتے ہاتھ سے چلے جا ئیں تو اس وقت دل کی کیا کیفیت ہو تی ہے ۔ میں نے سو چا کہ اِن دُ کھوں کے دیکھنے سے پہلے ایشو ر نے میر ی ہی جان کیوں نہ لے لی ۔

قر یب تھا کہ میں گر پڑ وں ، مایا ہو ش میں آگئی ۔ مجھے پہلے سے کچھ سہاراملا ۔ میں نے دل میں کہا ، میں ہی مایا کو سہا رادے سکتا ہو ں ۔ اور اگر میں خو داس طر ح صلہ چھوڑ دوں تو مایا کسی طر ح نہیں بچ سکتی ۔ میں نے حو اس جمع کر تے ہو ئے کہا ، مایا بیٹی  ...دیکھو ! مجھے یو ں خانہ خراب مت کر و ۔ حو صلہ کر و ۔ بچے اغو اہو تے ہیں مگر مل بھی جا تے ہیں ۔ بھو لا مل جا ئے گا ۔

ماں کے لیے یہ الفاظ بے معنی تھے ۔ اس وقت آدھی رات اِ د ھر تھی  اور آد ھی رات اْدھر جب  ہماراپڑ وسی اس حا د ثے کی خبر گا ؤ ں سے دس کو س دور تھا نے میں پہنچانے کے لیے روانہ ہو ا ۔

ہم سب ہا تھ ملتے ہو ئے صبح کا انتظار کر نے لگے تا کہ دن نکلنے پر کچھ سجھائی دے ۔ دفعتًہ دروازہ کھلا اور ہم نے بھولے کے ماموں کو اندر آتے دیکھا ۔ بھو لا اس کی گو د میں تھا ۔ اس کے سر پر مٹھا ئی کی  ٹو کر یا ں اور ایک ہا تھ میں بتّی تھی ۔ ہمیں تو گو یا سار ی دنیا کی دولت مل گئی ۔ مایا نے بھائی کو پانی پوچھا نہ خیر یت اور اس کی گو دسے بھو لے کو چھین کر اسے چوٗ  منے لگی ۔ تما م اڑ وس پڑ وس نے مبارکباددی ۔ بھولے کے ماموں نے کہا ، مجھے ایک کام کی وجہ سے دیر ہو گئی تھی۔دیر سے روانہ ہو نے پر رات کے اندھیرے میں مَیں اپنا راستہ گم کر بیٹھا تھا ۔یکایک مجھے ایک  جانب سے روشنی آ تی دِ کھائی دی  ۔ میں  اس کی طرف بڑ ھا ۔ اس خوفناک اند ھیر ے میں پر س پورسے آنے والی سڑ ک پر بھو لے کو بتی پکڑ ے ہو ئے اور کا نٹوں میں اُلجھے ہو ئے دیکھ کر میں حیران رہ گیا ۔ میں نےاس سے اس و قت و ہاں ہو نے کا سبب پو چھا تو اس نے جواب دیا کہ بابا جی نے آج دوپہر کے وقت مجھے کہا نی سنا ئی تھی اور کہا تھا کہ دن کے وقت کہا نی سنا نے سے مسا فر راستہ بھو ل جا تے ہیں ۔ تم دیر تک نہ آئے تو میں نے یہی جا ناکہ تم راستہ بھول گئے ہو گے اور بابا نے کہا تھا کہ اگر کو ئی مسا فر راستہ بھو ل گیا تو تم ذمے دارہو گے... !!                                                 





Post a Comment

0 Comments