حضرت سلمان
فارسی ؓ
Hazrat
Salman Farsi
اللہ تعالیٰ کے برگز یدہ بندے ہمیشہ حق کی تلاش میں سر
گرداں رہتے ہیں ۔ ان کی استقامت اورثابت قدمی میں اس راہ کےمصا ئب کبھی بھی مانع
نہیں ہو تے اوروہ تمام تکلیفوں کا سا مناکر تے ہوئے آگے بڑ ھتے رہتے ہیں ۔ انھیں
اپنی ذات کاخیال رہتاہے نہ مال ومتاع کی فکر۔ عیش و آرام کی لذ تو ں میں ان
کادللچاتا ہے نہ صحرؤ ں اورپہاڑوں میں گھبر اتاہے ۔انھیں دُھن رہتی ہے تو بس
تلاشِ حق کی ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ
عنہ کا شما ر ایسے ہی لوگو ں میں ہو تاہے ۔حق کو پانے کے لیے انھوں نے جوپریشانیاں
برد اشت کیں ، ان کاذکرصحابہ کی سیرت پر لکھی ہو ئی مختلف کتابو ں میں مو جو دہے ۔
ایر ان قد یم زمانےہی سے علم و ہنرکا مرکز رہا ہے ۔ انسانی
تمدن کا سورج ابھی نصف النّہا ر پر بھی نہ پہنچا ہو گا کہ و ہاں کی تہذیب و معاشرت
کے چر چے عام ہونے لگے تھے ۔ مجو سیوں نے زرتشتی مذ ہب کو عام کرنے میں کو ئی کسر
اُٹھا نہ ر کھی تھی ۔ دنیا کی اوّ لین حکو
مت کا قیام و ہیں عمل میں آیا ۔ ساتویں صدی عیسو ی میں ساسانی حکومت میں سیاسی تغیر
ات ہو ئے اور فو جی نظام کو ترقی دی گئی ۔ حضرت سلمان فا رسیؓ ان تبد یلیوں
کو دیکھتے رہے مگر حق کو پا نے کی لگن ان کے دل میں کر و ٹیں
لیتی رہی۔
حضرت سلمانؓ کے والد یوذَخشان بن مرسلان اصفہان کے ایک گا ؤں جِیاں کے ایک بڑ ے مجوسی زمیندارتھے
۔کسی وجہ سے انھوں نے جیان سے ترکِ وطن کرکے ہُر مُز میں سکونت اختیار کرلی تھی ۔
اسی گاؤں میں حضرت سلمانؓ پیداہو ئے ۔ ان
کا پہلا نام ماہو یہ تھا۔ وہ اپنے والدکےلیے دنیاکی سار ی چیز وں سے زیادہ محبوب
تھے اسی لیے بچپن سےان کا بہت زیاد ہ خیال رکھاجا تا تھا ۔ انھوں
نے کم عمری ہی میں مجوسیت کی اس قدر تعلیم حاصل کرلی تھی کہ انھیں آتش کد ے
کاداروغہ بنادیاگیا مگر وہ اس مذہب سے مطمئن نہیں تھے ۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ حضرت
سلمانؓ کے والدنے کسی کام کے لیے انھیں کھیت میں جانے کے لیے کہا ۔ کھیت کے راستے
میں ایک گر جا گھرتھا ۔ حضرت سلمانؓ کھیت میں جانے کی بجائے اس گرجا گھر میں چلے گئے اوردیر شام تک وہیں رہے ۔ گرجا
گھرکی رسومات اورعبادات کے طر یقے سے وبہت متاثر ہو ئے ۔ گھر لوٹ کر انھوں نے ساری رودادااپنے والدکو سنائی
۔ یہ سن کر وہ بہت برہم ہو ئے اور حضرت سلمانؓ کےپیروں میں بیڑیاں ڈال دیں ۔
حضر ت سلمانؓ کسی طرح
ان بیڑ یو ں سے آزاد ہو ئے اور ایک عیسا ئی قافلے کے ساتھ ملکِ شام چلے گئے
۔ وہا ں مختلف پادر یو ں کی خدمت کر کے انھو ں نے عیسائی مذ ہب کی تعلیمات حاصل
کیں ۔ جب کسی پادری یاراہب کا انتقال ہو جاتا ، حضرت سلمانؓ دوسر ے کے پاس چلے
جاتے ۔ اس طرح انھوں نے اصفہان سے شام ، نینوااور عمو ریہ تک سیکڑ وں میل کا سفرطے
کیا اورتلاشِ حق کی خا طر کڑ ی مصیبتیں برداشت کیں ۔ با لآخر عموریہ کے راہب نے انھیں یہ بتایا کہ عنقر یب حضرت ابراہیؑم کا دین لے کر ایک نبی
مبعوث ہو گا ۔ وہ کھجو روں والی زمین کی جانب ہجرت کر ے گا ۔ اس کے ما ننے والے پر
وانو ں کی ما نند اس کے اطر اف جمع رہیں گے ۔ تم اس کی ظاہر ی نشا ینو ں سے اسے پہچان
لو گے ۔ اے سلمان ! سُن ، اس کی نشانی یہ ہو گی کہ وہ صدقے کامال نہیں کھائے گا۔
وہ ہدیہ قبول کرے گا اوراس کے شانو ں کے درمیان نبوت مہر ہو گی ۔
حضرت سلمان فارسیؓ اب کھجو روں والی زمین تک پہنچے کے لیے
بے قراررہنے لگے۔ انھوں نے لوگوں سے اس سر زمین کے متعلق دریافت کیاتو پتاچلا کہ
یہ عر ب کی ایک بستی مدینہ ہے ۔
اتفاق سے اسی زمانے میں عموریہ میں عربو ں کا ایک قافلہ
آیاہواتھا۔ حضرت سلمانؓ نے اپنا تمام مال واسباب اس کے حوالے کردیا اوراس قافلے میں شامل ہو گئے ۔
وادیِ قُری پہنچتےہی قافلے والوں نے انھیں ایک یہودی کے ہاتھو ں غلام کی طرح فروخت
کردیا۔ اس یہودی نے بھی انھیں مد ینے کے ایک دوسر ے یہودی کے حو الے کردیا ۔ اس
طرح حضرت سلمانؓ سخت تکلیفوں کاسامناکرتے ہو ئے کھجوروں والی زمین تک پہنچ گئے ۔
وہ آنے والے بے چین رہنے لگے ۔ ایک دن وہ اپنے یہودی آقا کے باغ میں در خت پر چڑ ھ رہے تھے کہ کسی
نے باغ کے مالک کو یہ خبرسنائی کہ قبا میں چند لوگ ایک شخص کو اپنا نبی کہہ رہے ہیں
اوراس کے گر دجمع ہو رہے ہیں ۔ خبر کا سنناتھا کہ حضرت سلمانؓ کا نپنے لگے ۔ نیچےاُترکر
انھوں نے نبیؐ سےملنے کی تدبیریں کیں ۔ایک روز مو قع پاکروہ نبی اکرمؐ کی خدمت میں
حاضرہو گئے ۔ وہ کچھ کھجوریں اپنے ساتھ لائے تھے ۔ انھوں نے کھجوریں یہ کہہ کررسول
اللہؐ کی خدمت میں پیش کیں کہ یہ صدقہ ہے ۔ آپؐ نے اس میں سے کچھ بھی نہ چکھااورساری
کھجو ریں انپے صحابہؓ کو کھلادیں ۔ حضرت سلمانؓ یہ دیکھ کر مطمئن ہو گئے کہ راہب
کی بتائی ہو ئی پہلی نشانی تو صحیح ثابت
ہوئی۔ دوسر ے مو قع پر حضرت سلمانؓ پھر نبیؐ کے پاس پہنچے ۔ اس بار کھجو ریں دیتے ہو
ئے انھوں نے کہاکہ یہ تحفہ ہے تو نبیؐ نے انھیں تناو ل فرمایااوراپنے صحابہؐ میں
بھی تقسیم کیا ۔ اس طرح دوسری نشا نی بھی صحیح نکلی ۔ حضرت سلمان ؓ اب نبی اکر مؐ
کی تیسری نشانی دیکھنے کے لیے بے تاب تھے ۔ ایک روزوہ نبیؐ کی پشت کی جانب محفل
میں بیٹھ گئے ۔ اس و قت آپؐ کے جسم کا کپڑ
اہو اسے سرک گیااورآپؐ کی پشت پر موجودمہرِ
نبوت پر حضرت سلمانؓ کی نظرپڑگئی۔ انھوں نے نہ صرف اس کا دیدارکیابلکہ اسے
چوُم کر دیرتک رو تے رہے اوراسی محفل میں
آپؐ کے ہاتھ پر بیعت ہو کر مسلمان ہو گئے ۔ یہاں پہنچ کر حضرت سلما نؓ کی تلاشِ حق
کا سفر تمام ہو ا ۔
حضرت سلمانؓ اب اہلِ مد ینہ اورمہاجر ین کے بھائی بن گئے
تھے ۔ سب ان کی قدرکر تے اورانھیں عزّت کی نظرسے دیکھتے ۔ حضرت محمدصلی ا للہ علیہ
وسلم نے ایک صحابی ابودردؓاور حضرت سلمان ؓ کے درمیان رشتہ مو اخاۃ قائم کر دیا۔ اخوت کایہ رشتہ
دونوں کے درمیان تا حیات قائم رہا۔ عبادتوں کی کثرت اور اہلِ خانہ سے غفلت جب حضرت
ابو درداؓ کے معمولات بن گئے تو حضرت سلمان ؓ نے انھیں ٹو کا اور کہا کہ جہاں تم پراللہ کے حقوق ہیں بیو ی بچوں کے بھی
حقو ق ہیں اوررات کو جاگنے کے ساتھ
سونابھی ضروری ہے ۔ دوسر ے دن یہ دونوں حضرات حضوراکر مؐ کی خدمت میں پہنچے اوررات کے معاملے کو آپؐ کے سامنے رکھا۔ آپؐ نے
فرمایا، سلمان تم سے بڑھ کردین
سے واقف ہیں ۔ یہ بزرگی انھیں حق کی جستجوکی وجہ سے حاصل ہو ئی تھی ۔ ایک مرتبہ
صحابہ کر امؓ کے ساتھ حضرت سلمانؓ بھی حضورؐکی
مجلس میں شریک تھے ۔ آ پؐ نے حضرت سلمان ؓ کے سرپرہاتھ رکھ کر فر مایا ،
اگردین ثریاپربھی ہو گا توفارس کا ایک آدمی اس کو پالے گا ۔ آپؐ صحابہ کر امؓ سے
فرماتے ، جس نے سلمان کو ناراض کیا ، اس نے خداکوناراض کیا ۔ لو گ جنت کے مشتاق ہو
تے ہیں مگر جنت سلمان کی مشتاق ہے۔
حضرت سلمانؓ جب تک یہودی کے غلام رہے ، وہ اسلامی جنگوں میں
شر یک نہ ہو سکے ۔رسولِ اکرمؐ نے تین سو کھجورکے درختوں اور چالیس اوقیہ سونا
معاوضہ دے کر حضرت سلما نؓ کوآزادکرالیا ۔ اب وہ جنگوں میں اپنی صلاحیتوں کا آزادانہ
استعمال کرنے لگے ۔ مشرکینِ مکہ اوریہودیوں نے مل کرجب مدینے پر حملے کی تیاریاں
شروع کیں ، اس وقت مدینے کودشمنوں سے محفوظ ر کھنے کے لیے حضرت سلمان فارسیؓ نے
شہرکے گر دخندق کھودنے کا مشورہ دیاجسے آپؐ نے پسندفرمایا ۔ خندق کھودی گئی جو
اتنی گہری اور چوڑی تھی کہ دشمنوں کے گھوڑے بھی اسے پارنہیں کر سکے اورانھیں
پسپاہو نا پڑا ۔ خندق کی کھد ائی کی وجہ سے اس غز وے کو غزوۃ خند ق کہا جاتاہے۔ اس
جنگ کے بعدحضرت سلمانؓ مختلف جنگوں میں شریک ہو تے ر ہے ۔ طائف کی جنگ میں ان کی ایماپر مسلمانوں کی جانب سے منجنیق کا
استعمال ہو ا ۔ حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے دورمیں بھی حضرت سلمان فارسیؓ
نے بہت سے جنگی کا رنا مے انجام دیے ۔ حضرت عمرؓ کے دورِخلافت میں جب ایر ان پر
لشکر کشی کی گئی تو اس وقت خو د سلمان فارسیؓ اسلامی لشکر کی رہنمائی فرمارہے تھے
۔ انھوں نے اوّلاًاپنے ہم وطن ایرانیوں کو مخاطب کیا اور انھیں سمجھایا ، میں تم
ہی میں سے ایک آدمی ہو ں ۔ تم دیکھتے ہو کہ عرب میری عزّ ت کرتے ہیں ۔ اگر تم
اسلام لے آئے تو تمھارے لیے ویسے ہی حقوق ہو ں گے جیسے ہمارے لیے ہیں ۔ تم پر وہی
احکام واجب ہو ں گے جو ہم پر ہیں ۔ لیکن ایر اینوں نے ان کی با تیں ما ننے سے
انکار کر دیا تو جنگ لڑی گئی اور دشمن کو شکست کا سامناکرناپڑا ۔
حضرت عمر فاروق ؓ کا یہ وہ دور تھا جس میں غلامو ں کو ملکو ں کا حکمر اں اور صُفّہ کے غربا کو اسلامی ممالک کا ناظمِ اعلیٰ بنایا جارہاتھا ۔ ایسی خوش حالی کے زمانے میں بھی مد ائن کے ناظمِ اعلیٰ حضرت سلمان فارسیؓ کھجو رے باغ میں پیڑ وں کے سایے تلے ٹوکریاں اور چٹائیاں بنتے رہے ۔ عشقِ رسولؐ کی تڑپ میں وہ بے چین رہتے ۔ انھیں لگن لگی تھی تو جنت میں حضرت محمدﷺ سے ملا قات کی ، آپؐ کی مصاحبت کی اور آپؐ کے دیدارکی ۔ اسی فکر میں غلطاں وہ زند گی کے ایّا م گزاررہے تھے ۔ حکو مت کی جانب سے ملنے والاعطیہ وہ خیرات کر د یتے یا لینے سے انکارکردیتے ۔ ان کی روزانہ کی آمد نی تین درہم تھی ۔ ایک درہم میں وہ ٹو کر یاں بنانے کے لیے کھجورکے پتے خریدتے،ایک درہم گھر میں خرچ کر تے اور ایک درہم خیرات کر دیتے ۔ یہی ان کے معمولات میں شامل تھا۔ اسی حالت میں حضرت سلمانؓ کا دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آگیا ۔ وہ سخت علیل تھے ۔ جب حضرت سعد بن وقاصؓ ان کی عیادت کے لیے تشر یف لائے توانھیں دیکھ کر سلمان فارسیؓ رونے لگے ۔ سعدؓ نے رو نے کی وجہ پو چھی تو فرمایا ، حضورؐ نے ہم سے عہد لیاتھا کہ تمھارا سازوسامان ایک مسا فر کے سامانِ سفرسے زیادہ نہ ہو ۔ مگر میرے پاس تواتنا زیا دہ سامان ہے ، میں اپنے محبوبؐ کو کیامنہ دکھاؤ ن گا؟ حضرت سعدؓ فرما تے ہیں کہ اُس وقت حضرت سلما نؓ کا کل اثاثہ ایک بڑ اپیا لہ اور ایک تسلاتھا۔
حضرت سلمان فارسیؓ سن ۳۳ھ میں دنیا سے رخصت ہو ئے ۔ انتقال کے وقت وہ اسّی بر س کے تھے ۔ ان کا مزار مدائن (عراق ) میں ہے ۔
0 Comments