Khaddar ka Kafan by Khwaja Ahmed Abbas|کھدرکا کفن -خواجہ احمدعباس

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Khaddar ka Kafan by Khwaja Ahmed Abbas|کھدرکا کفن -خواجہ احمدعباس

کھدّ رکا کفن -خواجہ احمدعبّاس
Khaddar ka Kafan by Khwaja Ahmed Abbas


 

تیس برس کی بات ہے جب میں بالکل بچہ تھا۔ ہمارے پڑوس میں غر یب بوڑھی جُلا ہی رہتی تھی۔ اس کا نام تو حکیمن تھا مگر لوگ اسے حکّو کہہ کر پکارتے تھے۔اس وقت شاید ساٹھ برس اس کی عمر ہوگی،وہ جوانی میں وِدھوا گئی تھی اور عمر بھر اپنے ہاتھ سے کام کرکے اس نے اپنےبچوں کو پالا تھا۔بوڑھی ہو کر بھی وہ سورج نکلنے سے پہلے اُٹھتی تھی،گرمی ہویاجاڑا۔ ابھی ہم اپنے لحافوں میں دُبکے پڑےہوتے کہ اس کے گھر سے چکّی کی آواز آنی شروع ہو جاتی۔ دن بھر وہ جھاڑودیتی،چرخہ کا تتی،کپڑا بُنتی، کھانا پکاتی ، اپنےلڑکے لڑکیوں، پوتوں اور نواسوں کے کپڑے دھوتی۔ اس کا گھر بہت ہی چھوٹا تھا۔ ہمارے اتنے بڑے آنگن والے گھر کے مقابلےمیں وہ جو تے کے ڈبے جیسا لگتا تھا۔دو کو ٹھریاں ،ایک پتلا سا دالان اور نام کے واسطے دو تین گزلمباصحن مگر وہ اسے اتنا صاف ستھرا اور ایسا لِپاپُتارکھتی تھی کہ سارے محلے میں مشہور تھا کہ حکوکے گھر کے فرش پر کھیٖلیں بکھیر کر کھاسکتے ہیں۔

            صبح سو یرے سے لے کررات گئے تک وہ کام کرتی تھی۔پھر بھی جب کبھی حکّو ہمارے گھر آتی ،ہم اسے ہشّاش   بشّاش ہی پاتے ۔بڑی ہنس مکھ تھی وہ۔مجھے اس کی صورت اب تک یاد ہے۔گہراسانولا رنگ جس پر اُس کے  سفیدبگلا سے بال خوب کھِلتے تھے۔

اس کی کاٹھی بڑی مضبوط تھی۔اس کی کمر مرتے دم تک نہیں جھکی۔آخری دنوں میں اس کے کئی دانت ٹوٹ گئے تھے جس سے بولنےمیں پوپلے پن کا انداز آگیا تھا۔ وہ ہمیں جِنوں اور پر یوں کی کہا نیاں سناتی۔اپنا ساراکا روبار خود چلاتی تھی۔حکّوپڑ ھی لکھی بالکل نہیں تھی،نہ اُس نے عورتوں مردوں کی برابری کا اصول سنا تھا۔پھر بھی حکّو نہ کسی مردسے ڈرتی تھی نہ کسی امیر،رئیس،افسر یاداروغہ سے۔

حکّونے عمر بھر محنت کر کے اپنے بال بچوں کے لیے تھوڑے بہت پیسے جمع کیے تھے۔بےچاری نے تو بینک کا م بھی نہ سنا تھا۔ اس کی ساری پونجی  جوشاید سودوسوروپےہو،چاندی کے گہنوں کی شکل میں اس کے کانوں، گلے اور ہاتھ میں پڑی ہو ئی تھی۔

چاندی کی بالیوں سےاْس کے جُھکے ہو ئے کان مجھے اب تک یاد ہیں۔ان گہنوں کو وہ جان سے بھی زیادہ عز یزرکھتی تھی کیوں کہ یہی اس کے بڑھاپے کا سہارا تھے مگر ایک دن سب محلےوالوں نے دیکھا:نہ حکو کے کان میں بالیاں ہیں۔نہ اس کے گلے میں ہنسلی ،نہ اس کے ہاتھوں میں کڑے اور چوڑیاں،پھر بھی اس کے چہرے پروہی پرانی  مسکراہٹ تھی اورکمر میں نام کو خم نہیں۔

ہوا یہ کہ ان دنوں مہاتماگاندھی،علی برادران کے ساتھ پانی پت آئے۔ہمارے نانا کے مکان میں انھوں نے تقریریں کیں سوراج کے بارے میں۔حکّوبھی ایک کونے میں بیٹھی سنتی رہی۔بعد میں چندہ جمع کیاگیاتو اُس  نے اپنا سارازیور اُتار کر اُن کی

جھولی میں ڈال دیا۔اُس کی دیکھادیکھی اور عورتوں نے بھی اپنے  اپنےزیوراُتار کر چندے میں دے دیے۔

اُس دن سے حکّو ہمارے ہاں آکرنانا ابّا سے خبریں سنا کرتی اور اکثر یو چھتی۔،’’  یہ انگریزوں کاراج کب ختم ہوگا؟‘‘ کانگر یس کے جلسے ہوتے تو ان میں بڑے چاؤ سے جاتی اور اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق سیا سی تحریک کو سمجھنے کی کوشش کر تی مگر عمر بھر کی محنت سے اس کا جسم کھو کھلا ہوچکاتھا۔ پہلے آنکھوں نے جواب دیا،پھر ہاتھ پاؤں نے حکو نے گھر سے نکلنابند کر دیا مگر چرخہ کا تنا نہ چھوڑا۔عمر بھر کی مشق کے سہارے آنکھوں کے بغیر بھی وہ کپڑا بُن لیتی ۔بیٹوں نے منع کیا تو اس نے کہا کہ وہ یہ کھدّراپنے کفن کے لیے بُن رہی ہے۔

پھر حکّومر گئی۔اس کی آخری وصیت یہ تھی کہ ’’ مجھے میرے بُنے ہو ئے کھدّر کا کفن دینا ۔ اگر انگریزی کپڑے کا دیا تو میر ی روح کو کبھی چین نصیب نہ ہوگا۔‘‘اُن دنوں کفن لٹھّے کے دیے جاتے تھے ۔کھدرکا پہلا کفن حکوہی کو ملا۔اس کا جنازہ اُٹھاتو جنازے میں اس کے چند رشتے داراور دو تین پڑوسی تھے۔نہ جلوس نہ پھول، نہ جھنڈے،بس ایک کھدّر کا کفن۔ 


Post a Comment

0 Comments