لوآگئی برسات -مجتبیٰ حسین
Lo Aagai Barsat by Mujtaba Hussain
لیجیے جناب !آگئی برسات لیکن ذراٹھہریے۔برسات کے آنے کی
اطلاع ہم کیوں دیں؟برسات تو اپنی آمد کا اعلان خود کردیتی ہے ۔یہی تووہ موسم ہے
جو اس شان سے آتا ہے کہ لگتا ہے کسی بادشاہ کی سواری آرہی ہے۔پہلے نقیٖب آوازیں
لگائےگا۔پھر تو پوں کی سلامی ہوگی اور تب کہیں بادشاہ سلامت جلوہ گر ہوں گے۔دوسرے
ملکوں کی برسات کی بات ہم نہیں کرتے البتہ اتنا ضروٗر جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کی
برسات بڑی دلیر اور بہادر ہوتی ہے کیوں کہ وہ دشمن پر غفلت میں حملہ نہیں کرتی
بلکہ اسے پہلے سے آگاہ کر دیتی ہے کہ لوہم آرہے ہیں،میدان چھوڑکر بھاگ
جاؤ۔دوسرے یہ کہ ہماری برسات بڑی ذہین اور چالاک ہوتی ہے کیوں کہ یہ اسی وقت آتی
ہے جب آپ گھر سے باہر ہوں اور جب آپ کے پاس چھتری بھی نہ ہو۔تیسرے یہ کہ ہماری
برسات کافی پڑھی لکھی بھی ہوتی ہے کیوں کہ یہ اخبار میں موسم کاحال پڑھتی ہے اور
پھر تر دید بیان کے طورپر برستی ہے۔بھلا بتایئے ایسا باضابطہ کردارکون سے موسم کا
ہوتا ہے ۔دوسرے موسموں کا یہ حال ہوتاہے کہ چوری چھپے آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں
۔آپ یقین کریں کہ جب تک ہم اخبارسے درجئہ حرارت معلوم نہیں کرلیتے تب تک نہ ہمیں سردی
معلوم ہوتی ہے اورنہ ہی گرمی ۔ایسے موسموں کولے کر کیاکیجیےگا!سچا موسم تو وہی
ہوتا ہے جو آئے تو بس سارے ماحول پر چھاجائے۔وہ اُمڈاُمڈ کر اور گرج گرج کر برسنے
والی بدلیاں اور وہ کڑک کڑک کر چمکنے والی بجلیاں جب آتی ہیں تو سارے ماحول پر
چھاجاتی ہیں۔
برسات کا موسم بڑی اُمیدوں والا موسم ہوتا ہے۔ جب ہم چھوٹے
تھے اور کبھی رات کو گھن گرج کے ساتھ طوفان برسات ہوتی تھی تو ہم ساری رات بستر
میں پڑے پڑے اپنے دل میں اس اُمید کو پروان چڑھایا کر تے تھے کہ صبح جب ہم اسکول
جائیں تو پتاچلے کہ سارا اسکول طغیانی میں بہہ گیا ہے۔اسکول کے ساتھ ساتھ سارے
ٹیچر بھی اپنی چھڑیوں سمیت بہہ گئے ہیں اور ساری کتابیں بھی بہہ گئی ہیں۔یہ اور
بات ہے کہ جب ہم اُمیدوں والی رات گزار کر اسکول پہنچتے تھے تو اسکول جوں کاتوں
کھڑا ہوتا تھا مگر اس سے کون انکار کر سکتاہے کہ برسات ہمارےدل میں سینکڑوں
اُمیدیں پیدا کر دیتی ہے۔
ہمارے دل پر ہی کیا موقو ف ہے،برسات کی آمدسے پہلے
خوددھرتی کے سینے میں بھی بڑی اُمیدیں چھپی ہوتی ہیں جو بعد میں لاکھوں ننھے منے
ہر ے بھرے پودوں کی شکل میں دھرتی کے سینے سے اُبل پڑتی ہیں۔
برسات کے موسم کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس سے بچنے کے لیے
ہر آدمی ہر ممکن کوشش کرتا ہے لیکن پھر بھی اس کو شش میں ہار جاتا ہے۔ سڑک پر جس
کسی کو دیکھیے،وہ نہ صرف رین کوٹ میں بند ہوتا ہے بلکہ ایک عددچھتری بھی اپنے ساتھ
رکھتا ہے لیکن پھر بھی بھیگ جاتاہے۔
برسات کے موسم کی ایک او ر خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں آدمی
دوسرے آدمی کو پہچان نہیں پاتاکیوں کہ سارے ہی لوگ رین کو ٹوں،ٹوپیوں اور چھتریوں
کے نیچےچھپ جاتے ہیں ۔اکثرایساہوا کہ ہم مالک مکان سے اپنے گھر کی چھت کی شکایت کر نے ان کے گھر پہنچے اور
وہ ہماری نظروں کے سامنے رین کوٹ میں چھپ کر گھر سے باہر نکل کر چلے گئے اور بعد
میں ان کی بیوی نے بتایا،’’ابھی جو صاحب آپ کے سامنے رین کوٹ اوڑھ کرگزرے ، وہ
آپ کے مالک مکان ہی تو تھے۔‘‘اس کا بدلہ ہم نے اکثر یوں لیا کہ جب مالک مکان ہم
سے کرایہ مانگنے کے لیے گھر آتے ہیں تو ہم بھی رین کوٹ اوڑھ کر ان کی نگاہوں کے
سامنے سے فاتحانہ گزرجاتے ہیں ۔اینٹ کا جواب پھتر سے نہ دیاجائے ، نہ سہی لیکن
اینٹ کا جواب اینٹ سے دینے میں کیا قباحت ہے؟
ہم نے ہربرسات میں مکان بدلنے کی پوری پوری کوشش کی لیکن
پچھلی برسات کے ایک واقعے کے بعد ہم نےیہ کوشش تر ک کردی ہے ۔ہوا یوں کہ ایک رات
لگاتار اور دھواں دھار برسات ہو تی رہی
اور اس کے ساتھ ہی ہمارے مکان کی چھت بھی ٹپکتی رہی ۔ہم ساری رات بھیگتے رہے۔دوسرے
دن ہم نے تہیہ کر کیا کہ اب مکان بدل کے رہیں گے۔سو مکان کی تلاش میں ایک محلے میں پہنچے اور ایک پنواڑی سے
پوچھا،’’کیوں بھئی !کیا تمھارے محلے میں کوئی مکان خالی ہے؟‘‘
وہ بولا،’’بابوجی !ایک مکان خالی تو تھا مگر آپ نےیہاں
آنے میں پورے چھےگھنٹوں کی تاخیر کردی۔‘‘
ہم
نے پوچھا،’’کیاوہ مکان کر ایے پر اُٹھ گیا؟‘‘
اس پر وہ بولا،’’نہیں بابوجی !کل رات کی دھواں دھار برسات
کی وجہ سے ابھی چھے گھنٹے پہلےوہ مکان گر گیا۔ اگرآپ کو ضروٗر مل جاتا۔‘‘ اس واقعے کے بعد بھلا کس کی شامت
آئی ہے کہ وہ نیا مکان تلاش کرے۔لہٰذااب ہم برسات کی آمد سے پہلے کھانسی ،نزلہ
اور زکام کی دواؤں کا اسٹاک جمع کر لیتے ہیں اور اس طرح چھت کامقابلہ کر تے ہیں۔
برسات کے موسم کی ایک اور خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں نئے
نئے سماجی تعلقات اور آپ کے نئے نئے دوست پیدا ہوتے ہیں۔فرض کیجیے آپ برسات میں
اپنی چھتری کھولے سڑک پر چلے جارہےہیں کہ اچانک ایک صاحب آپ کے ساتھ ساتھ چلنے لگیں
گے۔تھوڑی دیر بعد وہ آپ سے بہت قریب آجائیں گے۔ایک بار ہم نے ایک شخص کو اسی طرح
اپنی چھتری کے نیچے پناہ دی تھی۔ آدمی صورت سے نہ صرف شریف لگتا تھا بلکہ وضع قطع سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ
اس نے ہماری چھتری کے نیچے آکر ہماری چھتری کو عزّت بخشی ہے۔اسی لیے ہم کافی دور
جاکر اسے گھر تک چھوڑآئے۔اتفاق سے دوسر ے دن ہماری ملازمت کا انٹرویو تھا۔
انڑویو میں پہنچے تو دیکھا کہ و ہی شخص ڈائر کڑ کی کرسی پر بیٹھا
ہے۔اس نے ہم کوئی سوال نہیں پوچھا۔صرف یہ
کہا،’’تم جاسکتے ہو۔ تمھارا انتخاب ہوچکاہے۔‘‘ ہم جانتے ہیں کہ اس ملازمت کے لیے
ہمارے پاس ایک ہی کو الیفکیشن تھی اور وہ تھی ہماری چھتری ۔
برسات کا موسم آتے
ہی سڑکوں پر جابجا چھتریاں ہی چھتریاں نظرآنے لگتی ہیں ۔مردوں کی چھتریاں الگ
ہوتی ہیں اور خواتین کی الگ ۔اگر چہ اب مردوں اور عورتوں کے لباس کا فرق مٹتا
جارہا ہے مگر خدا کا شکر ہے کہ چھتریوں کے معاملے میں ابھی جنس اتنی مشکو ک نہیں
ہوتی ہے۔
برسات کے موسم کی ایک اور خصوصیت یہ ہو تی ہے کہ ان دِنوں کیچڑکی بالکل قلّت نہیں ہو تی ۔کیچڑ آپ کو جابجا مل جائے گی۔کیچڑ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس پر سے پھسلنے میں بڑا مزہ آتا ہے۔ اتنا مزہ کہ بعض اوقات نہ صرف آپ کی ہڈی ٹو ٹ جاتی ہے بلکہ چارپابچ سوروپیوں کا سوٹ بھی غارت ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ لو گ بڑے اعلیٰ اور نفیس سوٹ پہن کر کیچڑ پر سے پھسلتے ہیں اور گھر جا کر آئینے میں اپنی صورت دیکھتے ہیں ۔ ہم نے بڑے بڑے شہسواروں کوکو کیچڑ سے پھسلتے دیکھا ہے ۔جو بد قسمت حضرات کیچڑ پر سے پھسل کر اپنے کپڑ ے خراب نہیں کر پاتے ان کے کپڑوں پراب موٹریں کیچڑ اُچھالتی پھرتی ہیں کہ لو بھئی،اُداس کیوں ہوتے ہو۔ یہ لو کیچڑ ! اور پھر شڑاپ کے ساتھ آپ کا روم روم کیچڑ میں لت پت ہو جا تا ہے۔
0 Comments