مو لا نا
حسرت مو ہا نی-نورالحسن نقوی
Moulana Hasrat Mohani by Noorul Hasan Naqvi
مولانا
حسرت موہانی کی شخصیت میں کوئی ایسی دلفریبی نہیں تھی کہ جو پہلی بار ملے، گرویدہ
ہو جائے لیکن جن خوش نصیبوں کو انھیں نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا، وہ ان کی عظمت
کے قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ مولانا ان لوگوں میں سے تھے جو آنے والی نسلوں کی
رہنمائی کے لیے وقت کے ریگزار پر اپنے قدموں کے نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کی زندگی
فقر و استغنا اور ایثار و خلوص کا بے نظیر مجموعہ تھی۔
حسرت علی گڑھ میں زیر تعلیم تھے کہ تحریک آزادی سے وابستہ
ہو گئے ۔ اس جرم میں تین بار کالج سے نکالے گئے، کئی بار قید با مشقت کی سزا بھگتی
اور ایک ایک دن میں من من بھر آنا پیسا۔ تحریک کی حمایت میں انھوں نے ایک رسالہ
اُردوئے معلی " جاری کیا تھا جسے بے باکی اور صاف گوئی کی پاداش میں بند کرنا
پڑا۔ پریس اور کتب خانہ ضبط ہوا۔ مضامین کے مسودات ان کی آنکھوں کے سامنے نذر آتش
کیے گئے۔ کالج کی حدود میں داخلہ ممنوع ہو گیا تو شہر میں کرایے کا مکان اور سودیشی
تحریک کو فروغ دینے کے لیے سود یشی اسٹور کھول لیا جس کا کالج کے اسٹاف اور طلبہ کی
طرف سے بائیکاٹ کیا گیا۔ جیل گئے تو گزر اوقات کے لیے ان کی بیوی نے دکان پر بیٹھ کر کپڑا بیچا اور کسی ہمدرد نے مالی
مدد کرنا چاہی تو یہ کہہ کر انکار کردیا کہ حسرت صاحب نے کسی کا سہارا لینا گوارا
نہیں کیا تو میں یہ مدد کیسے قبول کرلوں ؟ جیل ہی میں تھے کہ بیٹا بیمار پڑا، حالت
بگڑی اور دنیا سے رخصت بھی ہو گیا مگر حکام نے باپ کو مطلع کرنا بھی ضروری نہ
سمجھا۔ بہت دن بعد جب اس جاں کا و حادثے کی اطلاع ملی تو حسرت صرف آہ بھر کر رہ
گئے۔
تحریک آزادی کا درخت برگ و بار لایا تو اس کی فصل کا لوگوں
میں بٹوارا ہوا؛کسی کے حصے میں دھن دولت آئی، کسی نےشہرت پائی کسی کو صرف عزت ملی
مگر حسرت کو کچھ بھی نہ ملا۔ وہ کسی مصلہ وستائش کے طلبگار بھی نہ تھے۔ انھیں
انعام ملا تو یہ کہ ان کے اپنوں نے کہا ، بڑے میاں سٹھیا گئے ہیں فہم وفراست سے
محروم ہیں، سیاسی شعور سے بے بہرہ ہیں ۔ انھوں نے کچھ بھی تو نہ پایا نہ یگانوں سے
نہ بیگانوں سے ، مگر یہ حسرت ہی تھے جو ہمیں سرافرازی کی ایک لازوال دولت عطا کر
گئے ۔ ہم ہمیشہ سر اٹھا کے کہہ سکیں گے کہ جب ملک کے بڑے بڑے سورما آزادی کام کا
نام لیتے گھبراتے تھے تو ایک مرد سلماں ، اردو کے ایک شاعر وادیب نے ہزار مخالفت
کے باوجود ہزاروں کے مجمعے میں فوری اور مکمل آزادی کی تجویز پیش کی۔ یہ اور بات
کہ کوئی جواں مرد اس کی آواز میں آواز نہ ملا سکا۔
اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے مولاسید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ احمد آباد میں کانگریس کا ایک
تاریخی جلسہ تھا۔ محمد علی شوکت علی، ابو الکلام نظر بند تھے۔ باقی حضرات شریک
تھے۔ ڈاکٹر انصاری اور سید محمودکے ساتھ اجلاس میں مَیں بھی تھا۔ اجلاس کے پنڈال
سے باہر ایک شامیانے میں مغرب کےمسلمانوں کا جلسہ تھا۔ گاندھی جی خاص طور سے
مسلمانوں سے کچھ کہنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اتنے میں دیکھا کہ کانگریس کی سجیکٹ کمیٹی
سے گھبرائے ہوئے ، بھاگتے ہوئے دو وا لینٹیر آئے اور گاندھی جی سے نہایت اضطراب کے
ساتھ کہا کہ جلدی چلیے ، کمیٹی میں حسرت موہانی صاحب نے ہندوستان کی مکمل آزادی کی
قرارداد پیش کر دی ہے اور کسی طرح واپس نہیں لے رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ
فضا میں کوئی غیبی گولہ آکر پڑا ہے۔ گاندھی جی گھبرائے ہوئے جلسے سے اُٹھ کر سجبیکٹ
کمیٹی کی طرف روانہ ہو گئے مگر حسرت بدستور اپنی بات پر جمے رہے اور نوٹس دیا کہ وہ
اسے کھلے اجلاس میں پیش کریں گے۔ چنانچہ وہ وقت آیا جب کھلے اجلاس میں حسرت نے
ہندوستان کی مکمل آزادی کی تجویز پیش کی اور آنکھوں نے دیکھا کہ ہزاروں کےمجمعے میں
ایک آواز بھی ان کی تائید میں نہ اُٹھی۔
حسرت کی شخصیت کے جس پہلو پر سب سے پہلے نظر جاتی اور جسم
کے رہ جاتی ہے، وہ ان کا فقر واستغنا ہے۔ ساری زندگی ان کا ہاتھ تنگ رہا۔ ایسوں کے
دل میں دولت کی حرص کچھ زیادہ گھر کر لیتی ہے مگر حسرت کا معاملہ برعکس تھا۔ کبھی
دولت ان پر مہربان ہوئی بھی تو مولانا فورا گھبرا کے ایک قدم پیچھے ہٹ گئے ۔
مہاتما گاندھی نے ایک بار پنڈت نہرو سے سوال کیا تھا،
جواہر لال !یہ بتاؤ کہ دیش آزاد ہوا اور تم پر دھان منتری
بنائے گئے تو کیا تنخواہ لو گے؟“
سو روپے ماہوار انھوں نے از روہ انکسار جواب دیا۔
اس پر مہا تما چیخ پڑے : " جواہر لال !تم اس ننگے بھو
کے دیش سے سوروپے تنخواہ لوگے ، سو روپے !
جب دیش آزاد ہوا تو حسرت کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ پارلیمنٹ
کے ممبر خود اپنی سرکار سے اتنی بڑی بڑی رقمیں سفر خرچ کے طور پر کیوں وصول کرتے ہیں۔
انھوں نے ایک مشاعرے کے منتظمین سے یہ کہہ کر سفر خرچ لینے سے انکار کر دیا تھا کہ
میں گرفتاری کے ڈر سے بلا ٹکٹ انجن میں بیٹھ کر آیا ہوں ۔ کرایہ کیسے لے لوں؟ ایک
بار پی ایچ۔ ڈی کا زبانی امتحان لینے وہ علی گڑھ آئے ۔ دستخط کے لیے نی اے بل پیش
کیا گیا۔ میزان پر نظر پڑی تو دیر تک کہتے رہے کہ اتنے بہت سے روپیوں کا ہم کریں
گے کیا ؟ پھر تفصیل پر نظر پڑی تو چونکے۔ بولے، ہم تو تھرڈ کلاس میں آئے ہیں، فرسٹ
کلاس کا کرایہ کیسے لے لیں۔ پھر ارشاد ہوا، ہم تو آپ کے گھر ٹھہرےہیں، یہ قیام و
طعام کا خرچ کیا معنی؟ پھر کچھ اور خیال آیا، بولے ہم تو دہلی جارہے تھے، راستے میں
ذرا دیر کو یہاں اُتر گئے ۔ ہم تو کچھ لے ہی نہیں سکتے۔
جو شخص درویشانہ زندگی بسر کرتا ہو، اسے روپے پیسے کی ضرورت
بھی کیا۔ ایک دوست کو کھانے پر مدعو کیا۔ دعوت کا وقت آیا تو مہمان عزیز کے لیے ڈیوڑھی
میں چٹائی بچھا دی۔ پھر اندر سے ایک رکابی میں چنے کی دال کا سالن اور طباق میں
روٹیاں لے آئے ۔ اسے محبت سے بٹھایا اور میزبانی کا حق ادا کر دیا۔ لباس کی طرف سے
وہ ہمیشہ بے پروا رہے ۔ بیگم نے جو کپڑے دے دیئے، انھوں نے بلا تاتل پہن لیے ۔ وہ
ان کے کپڑے خود ہی سیتی تھیں، خود ہی دھوتی تھیں۔ مولانا کو افسوس تھا کہ شیروانی
درزی سے سلوانی پڑتی ہے۔ بیگم سے ذکر کیا تو انھوں نے کسی درزی سے شیروانی کی تراش
سیکھ لی اور درزی کا قصہ ہی پاک ہو گیا۔ جب کالج کے اساتذہ اور طلبہ نے حسرت کے
سودیشی اسٹور کا بائیکاٹ کیا تو وہ ذرا بھی ہراساں نہ ہوئے۔ بولے ہمارا خرچ ہی
کتنا ہے جو فکرمند ہوں ۔ ملازم رکھنے کی تو حالات نے کبھی اجازت ہی نہ دی۔ کرایے کے
جس مکان میں رہتے تھے، اس میں نل نہیں تھا۔ مکان کے سامنے سڑک کے اس پار پانی کا
نلکا تھا۔ حسرت پائینچے چڑھا کر بالٹیاں بھر بھر کے لاتے اور دن بھر کی ضرورت کے لیے
گھڑوں میں پانی بھر لیتے۔ کوئی اس کام میں مد کرنا چاہتا تو سختی سے انکار کر دیتے۔
آزادی کے بعد پارلیمنٹ کے ممبر ہوئے تو اجلاس میں شرکت کے لیے دہلی کے اسٹیشن پر
تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹ سے اس شان سے اُترتے کہ ایک تکیہ پھٹی ہوئی دری میں لپٹا ، رتی
سے بندھا داہنی بغل میں ہے اور بائیں ہاتھ میں لوٹا۔ اسٹیشن سے نکل کے پا پیادہ نی
دہلی کی مسجد میں جا پہنچتے کہ یہی ان کی قیام گاہ تھی ۔ جس غریب ممبر پارلیمنٹ کو
بھتے کے نام پر ایک پیسا وصول نہ کرنا ہو، وہ یہ نہ کرتا تو اور کیا کرتا۔
حسرت شاعر تھے، حسن پرست تھے اور اخلاص کے پیکر ۔ جس سے ایک
بار ملاقات ہوگئی ، اسے ہمیشہ محبت سے یاد
کیا۔ وہ ایک زندہ دل عاشق مزاج انسان تھے مگر یہ سب عہد شباب کی باتیں ہیں۔ انھوں
نے جسے ٹوٹ کر چاہا، وہ تھیں ان کی بیگم نشاط النسا۔ کہا کرتے تھے کہ زلیخا، کملا
اور نشاط نہ ہوتیں تو ابو الکلام، جواہر لال اور حسرت بھی نہ ہوتے۔
حسرت کو اپنے وطن سے جو عشق تھا اور اس کی آزادی کے لیے ان
کے دل میں جو بے پناہ تڑپ تھی ، اس کی طرف کچھ اشارے او پر کیے جاچکے ہیں۔ ملک کی
خاطر جیل تو ہزاروں لوگ گئے لیکن وہاں لوگوں نے جس طرح کی زندگی گزاری ، اس سے ہم
نا واقف نہیں مثلاً جیل میں مولانا آزاد اور ان کے رفقا کے شب و روز کیا تھے، غبار
خاطر کے خطوط سے اس کا ہمیں علم ہو چکا ہے۔ اب سینے حسرت کا حال خودان کی زبانی: جیل
پہنچتے ہی ایک لنگوٹ ، جانگیا، کرتا، ایک ٹوپی پہننے کے لیے، ٹاٹ کا ٹکڑا بچھانے
کے لیے، ایک کمبل اوڑھنے کے لیے ملا۔ ایک قدح آہنی بڑا، ایک چھوٹا ضروریات کو رفع
کرنے کے واسطے مرحمت ہوا۔ پھر مجھے الٰہ آباد جیل منتقل کیا گیا، جہاں قید کی ساری
مدت روزانہ ایک من آٹا پیسنا پڑا۔ یہ شعر اسی زمانے کی یادگار ہے۔
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
حسرت کا تعلق گرم دل سے تھا۔ احباب کے لاکھ سمجھانے کے
باوجود وہ حکومت سے شدید عداوت کا رویہ ترک نہ کر سکے اور ساری زندگی اس کا خمیازہ
بھگتا۔ سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوئی اور جیل جانے کا وقت آیا تو گاندھی جی اور
دوسرے رہنما چپ چاپ پولس کے ساتھ ہو لیے۔ حسرت نے سنا تو حیران ہوئے کہ یہ کیا
نافرمانی ہوئی۔ جب پولس انھیں گرفتار کرنے پہنچی تو دل میں جیل جانے کی خواہش تھی
مگر اظہار نافرمانی کے لیے زمین پر اوندھے لیٹ گئے کہ میں تو نہیں جاتا۔ مار پڑ رہی
ہے مگر نہیں اُٹھتے ۔ سپاہیوں نے گھسیٹا تو گھاس پکڑ لی۔ آخر بہ ہزار دقت زبردستی
لاری پر لاد کر لے جائے گئے۔ گاندھی جی اور ان کے فلسفہ عدم تشدد کے وہ قائل نہ
تھے۔ جب انھوں نے فوری اور مکمل آزادی کی تجویز پیش کی تو گاندھی جی اور دوسرے
رہنماؤں نے سمجھایا کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا مگر وہ نہ مانے ۔ حسرت کی تجویز کے خلاف تقریر کرتے ہوئے گاندھی جی نے کہا تھا، ” حسرت صاحب ہمیں
اس پانی میں لے جانا چاہتے ہیں جس کی گہرائی کا ہمیں اندازہ نہیں ۔“
حسرت بڑے بے باک اور بلا کے صاف گو تھے۔ دل کی بات زبان پر
لانے میں انھیں کبھی قائل نہ ہوتا تھا۔ اس میں کبھی کبھی نا گفتنی بات بھی زبان سے
نکل جاتی تھی جس کا تاوان بہر حال انھیں بھگتنا پڑتا تھا لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ
حسرت غور و فکر کے عادی نہ تھے یا ان میں تدبر کی کمی تھی۔ ان کے مزاج میں ایک طرح
کی جلد بازی ضرور تھی ۔ وہ ہر کام جلدی کرتے تھے۔ ان کا دماغ بھی اسی طرح تیز
رفتاری سے سوچتا تھا اور جب وہ کسی نتیجے پر پہنچ جاتے تھے تو چونکہ مصلحت کا ان
کے مزاج میں گزر نہ تھا، موقع محل دیکھے بغیر دل کی بات زبان پر لے آتے تھے ورنہ
ان کی دور اندیشی اور فہم و فراست کے ثبوت میں بہت سی دلیلیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
مولانا حسرت موہانی کو پہلی بارنئی دہلی کی ایک مسجد کے پاس
الجھی ہوئی بے ہنگم ڈاڑھی، پچکی ہوئی ترکی ٹوپی ،ٹوٹی ہوئی کمانی کی عینک، ملی دلی
شیروانی کے ساتھ ایک ہاتھ میں لوٹا اُٹھائے ، دوسرے میں رسی سے بندھا دری تکیہ
سنبھالے پھٹی پھٹی باریک آواز میں بولتے دیکھا تو ایک عظیم الشان دیوار ڈھیتی ہوئی
نظر آئی مگر جب ان کے حالات زندگی اور کارناموں سے شناسائی حاصل ہوئی تو اسی شکستہ
دیوار کے ملبے سے ایک مینارہ نور بلند ہوتا دکھائی دیا۔ ایسا بلند کہ آج تک تو اس
کا ہمسر کوئی دوسرا مینار نظر آیا نہیں۔
0 Comments