Siyah Roshni by Parveen Sher|سیاہ روشنی-پروین شیر

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Siyah Roshni by Parveen Sher|سیاہ روشنی-پروین شیر

 

سیاہ روشنی-پروین شیر

Siyah Roshni by Parveen Sher


طیا رہ اپنے آہنی پر وں کو پھیلا ئے زمین کے سپاٹ سینے پر آہستہ آہستہ چل رہا تھا ۔ رفتہ رفتہ اس کی رفتا رتیز ہو ر ہی تھی ۔ پھر دور تک پھیلے ہو ئے رَ ن وے سے ایک لمبی جست لگا کر وہ فضاؤ ں میں پر واز کرنے لگا ۔ اوپر…. اوراوپر ۔ زمین دورہوتی جا ر ہی تھی  اور چھوٹی….  پر و ین اپنی سیٹ پر سر ٹکا ئے اتنی بڑ ی زمین کو  ا تنی چھو ٹی ہو تےہو ئے دیکھ رہی تھی ۔ وہ زمین جس پرانسانی وجو د ایک ذرّ ہ ہے،و ہی اب خو دذرّ ہ بنتی جا رہی تھی ۔ طیا رہ باد لو ں کا نر م سینہ چیر تا ہو ا بلند ہو تا جا ر ہا تھا ۔ با دلو ں کے سمند رمیں ڈوب کر ز مین لا پتا ہو گئی جس  سے دور یہ ایک نیا  جہان تھا ۔ یہ خلا ؤ ں کا جہا ن تھا .... پر اسرار.... خاموش آوازوں کی گو نج جسے پر وین سن رہی تھی ۔ زمین سے دوراس نئے جہا ن میں آکر دل کی عجیب کیفیت تھی جس کا کو ئی نام نہ تھا ۔ ایک انو کھا احساس تھا ، ایک طفلا نہ خو ا ہش تھی....کھڑ کی سے بادلو ں کی آغوش  میں کودجانے کی ۔

آج وہ طیارے میں اُڑ رہی تھی او ر زمین کے اس حصے پر قد م رکھنے جا رہی تھی جسے اس نے صر ف تصو یر وں میں دیکھا تھا؛جہاں کی سچی کہا نیا ں کتا بو ں میں پڑ ھی تھیں ۔ جہا ں کا  ما ضی عبر ت نا ک تھا ، جہا ں انسانو ں پر ظلم ڈھا ئے تھے ، جہا ں انسا نیت منہ چھپا ئے سسک رہی تھی اور بر بر یت مسکرار ہی تھی ۔ پر وین خیالا ت کے سمندر میں غو طے لگا رہی تھی ۔ ڈوب رہی تھی ، اُبھر  رہی تھی ۔ جو ہا نس بر گ پہنخپے میں دس گھنٹے با قی تھے ۔ پر وین کے شر یکِ حیا ت وارث  اور بیٹے فر از کی آنکھیں نیند میں ڈوبی ہو ئی  تھیں ۔ پر وین کی پلکیں بھی بو جھل ہو رہی تھیں ۔جب اس کی آنکھیں کھلیں تو منز ل قریب تھی ۔ طیا رہ  نیچے اُتر رہا تھا ۔ زمین قریب آرہی تھی ۔ لکیر وں پر ر ینگتی چیو نٹیاں بڑ ی گا ڑ یا ں بن ر ہی تھیں ۔ چھو ٹی چھوٹی ڈبیا ں عا لی شان عمارتو ں میں تبد یل ہو رہی تھیں ۔ زمین کا سینہ پھیلتا جا رہا تھا اور پر وین کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو تی جا رہی تھیں۔ وہ اُس سر زمین پر قدم رکھنے والی تھی جہا ں کی مٹی کے ذرّے ذرّےمیں ما ضی کی دیکھ بھری کہا نیاں ہیں ۔ وہ سر زمین جسے کہا جا تا ہے کہ ایک ملک میں ایک دنیا آ با د ہے۔

طیا رے نے زمین کو چھو لیا تھا۔ صبح کا سو رج اپنی نرم   سنہری کر نوں کی چا در جو ہا نس برگ پر پھیلا ئے ہو ئے تھا۔ آج پر وین کے قدم اس سرزمین پر تھے جہا ں کتنی ہی یا دوں کی با زگشت تھی۔ وہ خیا لوں میں گم ،تجسّس اور حیرانی میں ڈوبی ہو ئی تھی کہ اچا نک ایک منحنی سا آ دمی ایک جھنڈی جس پر شیر فیملی درج تھا ،لہراتا نظر آیا ۔فراز اس کی طرف بڑھا اور اس شخص نے خوش آ مدیدکہہ کر اپنا تعارف کرایا ۔ وہ نرم گفتار ،خوش مزاج شخص کینن تھا؛ پرپروین گروپ کے سیا حوں کا رہبر ۔سیدھا سادہ ،نیک اور نرم دل ۔ نیویارک یا شکا گو میں کا لے لو گوں کا خوف دل وہ دما غ پر مسلط رہا ہے ۔ لوگ اس علا قے میں بھی نہیں جا تے جہا ں ان کی اکثریت ہوتی ہے لیکن اب اسے اس خوف پر ہنسی آ رہی ھی۔کینن کی شخصیت اور ارد گرد کا لوں کا جمِ غفیر...ان کے چہرے بتا رہےتھے کہ تمام انسان بنیادی طور پر یکساں ہیں ۔کو ئی پیدائشی مجرم نہیں ہو تا ،قا تل نہیں ہو تا بلکہ حالات کا شکا ر ہو تا ہے ۔کینن کے ساتھ اس کے گروپ کے گیا رہ سیا ح وین میں بیٹھ گئے تھے۔

وین جو ہا نس برگ کی سڑکوں پر دوڑ رہی تھی.....ہو ٹل و انڈررز کی طرف ۔کینن ہا تھ میں ما ئک پکڑ کر اگلی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا ۔اس کی آ واز وین میں گو نج رہی تھی ۔وہ کہہ رہا تھا،جو ہا نس برگ میں سا ؤ تھ افریقہ کا سب سے پرانا اسکو ل ہے جو ۱۸۹۵ءمیں تعمیر ہوا تھا ۔نیلسن منڈ یلا کے دانوں مکا نا ت یہیں ہیں۔وین میں بیٹھے ہو ئے سیا ح کینن سے سوالا ت کر رہے تھے اور وہ جوابا ت دے رہا تھا ۔جو ہا نس بر گ میں سو نے کی کا ن کا پا جا رج واکر بریسن نے لگا یا تھا ۔ساؤتھ افریقہ قدرتی و سائل کی وجہ سے دولت مند ہو گیا کیو ں کہ یہا ں سو نے اور ہیرے کے ذخا ئر ہیں۔یہا ں گو روں کی آبا دی دس فیصد ہے ۔یہا ں مو سمِ سر ما جو لا ئی سے شروع ہو جا تا ہے ۔کینن بو لتا جا رہا تھا۔

پروین وین کی کھڑکی سے با ہر دیکھ رہی تھی ۔ مکئی کے کھیت کے رنگوں سے سرور حاصل کر رہی تھے اور کینن کی آ واز سے علم کے مو تی چن رہی تھے۔ سو یٹو کی سڑکوں پر صبح کی نرم دوھوپ اپنے سنہرے پروں کو پھیلا ئے بیٹھی تھی۔ سڑک کے کنا رے رنگ ہی رنگ تھے۔ چھوٹے چھوٹے اسٹا لوں میں فنکا روں کے فن چمک اہے تھے۔ مجسّمے اور کرافٹ ،مصوری اور رنگین پو شاک۔ فٹ پا تھ پر بھی چادروں پر طرح طرح کی اشیا برائے فروخت مو جود تھیں۔ لو گ مول تول کر  رہے تھے۔ پروین اس کا ندار عورت کی بے بسی کو دیکھ رہی تھی جسے اپنی بقا کے لیے قیمت کم کرنی ہی تھی۔ وین کا ڈرائیور یو پا تھا۔ اس نے وین سایٹو کے ایک مفلوک الحال علا قے میں روک دی تھی۔سب سے سیاح با ہر نکل کر کینن کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ کرد وغبار میں ڈوبی ہو ئی کچی سڑکیں، تنگ گلیاں ،بددنگ چھوٹے چھوٹے گھر،کہیں کہیں گڑھوں میں جمع ہوا پا نی ۔ننگے پا ؤں بو سیدہ کپڑوں میں کھیلتے ہو ئے بچے ،گھر کے دروازوں پر بیٹھے چا ئے پیتے ہو ئے گپ شپ میں مصروف لوگ جنھیں زندگی کی دوڑ سے کو ئی مطلب نہ تھا۔ مکا نوں کلے سامنے تاروں  کی زنگ آلود با ڑھ اور ہر گھر پر ٹین کی چھت ۔ یہ علاقہ جو ہا نس برگ سے بیس میل دور ہے۔اسے سا ٹیوکہتےہیں۔ اپا ر ھا ئڈ کے دوران کا لوں کو اسی جگہ بھیج دیا گیا تھا ۔ سو ٹیوکا ما حول اور کچے راستے اور گلیوں سے اُڑتی ہو ئی گرد کے ذرّے کہہ رہے تھے کہ کس طرح وہ ملک دردکا گہوارہ بناتھا۔گلی کی دھول پروین کے قدموں سے لپٹ رہی تھی کہ سیا حت صرف جما لیا تی ذوق کی سکین نہیں.....کھر دری بد سو رتی کی آ گہی کا نام بھی ہے۔

سیا حوں نے سو یٹو میں ایک غریب خاندان کے خستہ حال دو کمروں کے مکان کو بھی دیکھا جس کے درودیوار بدحال تھے جن لکا رنگ اُڑا ہوا تھا۔ کمزور ستونوں پر ین کی چھت ٹکی ہو ئی تھی۔ ایک با تھ روم صحن میں ھا جسے ہمسایے بھی استعمال کر تے تھے۔ دوکمروں کے اس گھر میں نو افراد رہ رہے تھے۔ایک چھوٹے کمرے میں بستر اور میز کے درمیان چلنے کی جگہ بھی نہیں تھی۔ چھوٹی سی کھڑکی سے راشنی بھی سہمی ہو ئی اندد آ رہی تھی۔ ایک کمرہ ضعیف با پ کا تھا :نیم روشن ،چھوٹا سا پرانا بستر اور چھوٹی سی رنگ اُڑی ہو ئی میز تھی۔ اس کمرے کے ایک کو نے میں بو سیدہ کرسی پر ایک نو عمر لڑکی بیٹھی ہو ئی رسالہ پڑھ رہی تھی۔ اس لڑکی کے چہرے پر پروین نے بیزاری کے آ ثار دیکھ لیے تھے۔ اس کی آنکھوں میں اس نے خودداری کی پرچھائیاں بھی دیکھ لی ھیں۔ لڑکی کے نو عمر خون میں غم و غصّے کی لہر یں نظر آرہی تھیں۔پروین کا دل اس بیزار لڑکی سے بہت ساری با تیں کر نا چاہتا تھا ۔ وہ لڑکی کے قریب چلی گئی۔سوال کیا ،کیاتم یہیں رہتی  ہو؟ اس نے بہت روکھا سا جواب دیا، یقیناً ! شاید اس نو جوان لڑکی کو جو صرف سو لہ سال کی تھی،اپنے وجود ،اپنے خاندان اور گھر کو نما ئش کاسامان بنا ئے جا نے کا شدت سے احساس تھا۔ سیا حوں کے لیے ان کی خستہ حالی ،ان کی بے بسی ایک تفریح بن گئی تھی۔ دستور یہ تھا کہ سیاح ہمیشہ اس گھر کی غربت کا نظا رہ کر کے انھیں کچھ اُجرت دے دیتے جس سے گھر کے افراد کو کھا نا نصیب ہو تاتھا۔

تما م سیاح بے نیا زی سے اس گھر کے رہنے والوں کی کٹھن زندگی کو تفریحی نطروں سے دیکھ کر با ہر نکل گئے تھے، کچھ پیسے دے کر جو ایک رسم تھی۔ مگر زندگی کے یہ تظادات پر وین کے لیے معما تھے۔ سب سے سیاح اس گھر سے یوں باہر نکل آ ئے جیسے کوئی دلچسپ فلم دیکھ کر سنیما ہال سے باہر نکلے ہوں ۔ننگے پا ؤں اور پھٹے پرانے کپڑوں میں معصوم بچے بھی سیاحوں کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ شاید ان کے لیے یہ لوگ عجوبہ تھے۔ایک بچہ ،تقریباً سات سال کا ،فراز کے قریب آ گیااور اس نے بلا جھجک فراز سے باتیں شروع کر دیں۔ وہ فراز کے پیشے کے با رے میں پو چھ رہا تھا۔ کچے ذہن کے پختہ سوال نے پر وین کو حیران کر دیا تھا ۔ پھر اس لڑکےنے کہا کہ وکیل بننا چاہتاہو ں ۔ پروین اس معصوم کے خواب کے متعلق سن کر حیرت زدہ تھی،کچھ اُداس بھی۔اب تقریباً بیس بچوں کا جھنڈ سیاحوں کے ساتھ ساھ چل رہا تھا۔ کینن سے اجا زت لے کر پر وین نے ان بچوں کے لیے چاکلیٹ اور کھلونے خریدے۔ وہ با ری با ری ان میں یہ سوغات بان رہی تھی۔فراز نے ان بچوں سے باتیں شروع کیں و ایک جھنڈ چلا آیا اس کے گرد ۔یسے وہ ان کا پرانا دوست ہو ۔ پروین کی آ نکھیں فراز کی نرمی ۔رحم دلی اور انسانیت دیکھ کر نم ہو گئیں۔ فراز بھی بچوں کو کھلونے اور بسکٹ خرید کر دے رہا تھا۔ وہ ان کا ہیروبن گیا تھا۔وارث اپنے بیٹے کو فخر کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ پر وین کے لبوں پر مسکراہٹ  تھی اور اس کی پلکیں بھیگی ہو ئی تھیں۔


Post a Comment

0 Comments