Urdu Marathi Ke Saqafti Rishte by Syed Yahya Nasheet|اُردو مراٹھی کے ثقا فتی رشتے-سید یحیی نشیط

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Urdu Marathi Ke Saqafti Rishte by Syed Yahya Nasheet|اُردو مراٹھی کے ثقا فتی رشتے-سید یحیی نشیط

اُردو مراٹھی کے ثقا فتی رشتے-سید یحیی نشیط 

Urdu Marathi Ke Saqafti Rishte by Syed Yahya Nasheet


مہاراشٹر میں مسلمانوں کی بود و باش اور تہذیب و تمدن کے آثار آٹھویں صدی عیسوی سے پائے جاتے ہیں۔ عرب تاجر مسعودی اور یاقوت کی کتابوں میں چول اور تھانہ میں مسلم بستیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ولبھ رائے گووند سوم (۸۱۴-۷۹۳ء) اور ورش (۸۱۴-۸۷۷) کے دور حکومت میں تو مسلمانوں میں شرعی امور کی پاسداری کے لیے مسلمان ناظم مقرر کیا جاتا تھا جسے مقامی زبان میں ہنر من کہتے تھے۔ یہ غیرمسلم بادشاہ مسلمان مجرموں کو شریعت کے مطابق سزا دیا کرتے تھے اور ہنرمن کے انصاف پرتکیہ کیا جاتا تھا۔

اتحاد و اتفاق کی بدولت یہاں کی ہندو مسلم ثقافت ایک دوسرے سے متاثر ہوتی رہی اور ایک دوسرے کو متاثر کرتی رہی، اس پر مستزاد یہاں کی روحانی تعلیم جس کے ہوتے صوفی سنتوں کی خانقاہوں سے پھوٹے ۔ انھوں نے ظاہری رنگ ڈھنگ کو اُجالنے کی بجائے ان کو جیل کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ظاہری اعتبار سے تو آدمی کا مذہب الگ الگ ہو سکتا ہے، باطن میں البتہ اس کی روح ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں خانقاہوں میں ہندوؤں کے گرو اور مٹھوں میں مسلمانوں کے مرشد آپس میں ہم رشتہ دکھائی دینے لگے تھے۔ غرض کہ مہاراشٹر میں خسروانہ جاہ و جلال اور درویشانہ فقر و حال کے مابین یگانگت اور بھائی چارے کی نشوونما ہوتی رہی اور اس سازگار ماحول میں ہندو مسلمان ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے عقیدوں کا احترام کرنے لگے تھے۔ سماجی دوریاں ختم ہونےلگی تھیں اور ثقافتی رشتے مضبوط ہونے لگے تھے۔ ایسے حالات میں زبانوں کے اشتراک اور بلا تفریق استعمال نے ان کے ادب پر بھی اثر ڈالا ۔ چنانچہ مراٹھی کے صوفی شاعر شیخ محمد کا یہ شعر زبانوں کی ثقافتی یکجہتی کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔

دونوں انکھیاں کا ایکچی دیکھنا

دُئی بھاشی ور نیلا ایکچی جا نا

                        दोनों अंखियों का एकची देखना

                        दुई भाषी वरनेला एकची जाना

یعنی جس طرح دونوں آنکھوں سے ہم ایک ہی چیز دیکھ سکتے ہیں، اسی طرح دو زبانوں میں ایک ہی مضمون بیان ہو سکتا ہے۔ شیخ محمد نے اپنی بعض مراٹھی نظموں میں ایک مصرع مراٹھی کا تو دوسرا اُردو کا لکھا ہے ۔ اس طرح کی شعری صنعت کو تلمیع کہتے ہیں۔ اس دور میں اُردو اور مراٹھی زبان و ادب کو قریب لانے کی یہ کوشش قابل تعریف کہی جاسکتی ہے۔ یہی روایت ہمیں مراٹھی سنت شاعر ایکنا تھ مہاراج کی مراٹھی نظم ہند و ترک سنواد میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ انھوں نے رسول اکرمؐ کی ایک نعت بھی لکھی ہے جو غیر مسلم شعرا کے نعتیہ کلام کا اولین نمونہ ہے۔ اس طرح نفرت کی بیخ کنی کرنے اور تمام نوع انسانی میں بھائی چارہ اور محبت پیدا کرنے کے لیے مراٹھی کے ان سنت شاعروں نے دھرم، ذات پات اور زبان کے امتیاز و تفوق سے ہٹ کر انسانی فلاح کا رشتہ ہموار کیا۔

باہمی رفاقتوں کا یہ سلسلہ اُردو میں بھی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ سترہویں صدی کے معروف بزرگ سید امین نے 'مجذوب السالکین لکھی تھی۔ اس کتاب کی تالیف کا سبب بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا،" میں چاہتا ہوں کہ مذکور کروں صوفیائے ہر دو قوم کا بیچ دکھنی زبان کے۔ میرے جیو میں آیا کہ مسلمانی ہور ہندوی مذہبی لفظاں جمع کر کر واسطے صوفیان ہر دو قوم کے ایک رسالہ بناؤں ۔ سید امین نے اس کتاب میں مراٹھی محاوروں اور کہاوتوں کا بڑی خوب صورتی سے استعمال کیا ہے۔ شیواجی مہاراج کے دور کے مشہور سنت رام داس سوامی کے شاگردوں میں شاہ تراب چشتی کا بھی نام لیا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے استاد کی مشہور مراٹھی کتاب مناچے شلوک سے متاثر ہو کر دکھنی زبان میں امن سمجھاون، لکھی تھی۔ ان دونوں کتابوں کی خوبی یہ ہے کہ ان کی بحر ایک ہی ہے اور بعض مضامین میں بھی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ یہ کتا بیں آدمی کی اندرونی اصلاح اور سماجی فلاح کے لیے لکھی گئی تھیں ۔ اس طرح ہندو اور مسلمان شعرا کی یہ ساری کوششیں اُردو اور مراٹھی کے ادبی روابط کو مضبوط کرنے میں بڑی اہمیت کی حامل رہی ہیں۔

عربی، فارسی اور اُردو میں مرثیے کو وقار حاصل ہے۔ یہ ایک ادبی شعری صنف ہے جسے مراٹھی میں روایتی کہا جانے لگا۔ فرق اتنا تھا کہ روایتی نوحہ اور بین کے قبیل کی صنف بن کر مراٹھی میں گائی جانے لگی۔ اس کے برعکس بھاروڑا خالص مراٹھی صنف رہی ہے۔ اس میں رمز یہ حقیقت کو آشکار کیا جاتا ہے۔ اُردو میں خواجہ بندہ نواز گیسو دراز نے اپنا رسالہ شکار نامہ اسی اسلوب میں لکھا ہے۔ مراٹھی میں ایکنا تھ کے بھا روڈ بہت مشہور ہیں۔

اُردو مراٹھی کے یہ ادبی دھارے آگے بڑھ کر مہاراشٹر کی ثقافت کو بھی اپنے میں سمو لیتے ہیں۔ یہاں کی ثقافت میں ' پھگڑی کے کھیل کو مذہبی تقدس حاصل ہے۔ ناگ پنچمی کے تہوار پر عورتیں پھگڑی کھیلتی ہیں۔ اس کھیل میں دو عورتیں ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ کر گول گھومتی ہیں۔ گھومتے وقت زمین پر پاؤں کا جماؤ اور پشت کی جانب جسم کا پورا جھکاؤ ہوتا ہے اس لیے ایک دوسرے کے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑا جاتا ہے۔ پوری قوت سے گھومنے کی وجہ سے سانس پھونلے لگتی ہے اور ہوہو کی آواز منہ نکلتی ہے۔ پھگڑی کے کھیل کے ان نکات کو ذہن میں رکھ کر اردو میں بعض پھگڑی نامے لکھے گئے ہیں۔ ایک قدیم دکنی شاعر فرید کے پھگڑی نامے میں ذ کردم کی تعلیم دی گئی ہے۔ چشتی سلسے کے صوفیوں میں ذکر دم کی بڑی اہمیت ہے۔ سانس اندر لیتے وقت اللہ اور خارج کرتے وقت ہو“ کا ور اس میں کیا جاتا ہے۔ بعض صوفیا دونوں جگہ اللہ، اللہ کے ورد کو روا رکھتے ہیں تو بعض صرف ہو، ہو پر اکتفا کرتے ہیں۔ فرید نے اپنے پھگڑی نامے میں اس ذکر کا ریاض کرایا ہے۔

فقیر اللہ شاہ نے البتہ اپنے پھگڑی نامے میں کہا ہے کہ جس طرح پھگڑی کے کھیل میں ہاتھوں کے چھوٹ جانے اور پیروں کے ڈگمگا جانے سے دور پھینکے جانے کا خدشہ رہتا ہے، اسی طرح صراط مستقیم پر چلتے ہوئے نفس اور شیطان کے وسوسوں سے پاؤں ڈگمگا جائیں اور اللہ کی رسی ہاتھ سے چھوٹ جائے تو دوزخ کے عمیق گڑھے میں گر جاؤ گے۔

مراٹھی لوک ادب میں زاتے گیت یعنی چکی پر گائے جانے والے گیتوں کی روایت رہی ہے۔ عورتیں بالعموم صبح کے وقت پتھر کی چکی پر اناج پیسا کرتی تھیں۔ چکی پیستے وقت تکان دور کرنے کے لیے عورتیں گیت بھی گا تیں۔ یہ لوک گیت مراٹھی شاعری کا ایک حصہ بن گئے ہیں۔ اُردو میں تعلیم نسواں کے لیے ہمارے صوفیائے کرام نے اسی قبیل کے گیت چکی نامے کے عنوان سے لکھے ہیں۔ ان میں ایک چکی نامہ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز سے منسوب ہے۔ اس گیت میں کہا گیا ہے کہ تن کی چکی کو شریعت کی کیل پر ایمان کے دستے کے سہارے اتنا گھماؤ کہ سوتن (شیطان) تھک جائے ۔“

اس سے پتا چلتا ہے کہ عورتوں کے مزاج اور ان کی نفسیات کو پیش نظر رکھ کر ہی اس طرح کے چکی نامے لکھے گئے ہیں۔ میراں جی اور فاروقی دکنی کے چکی نامے بھی اُردو کے لوک ادب میں شمار ہو سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ تربیت نسواں کے لیے جس طرح مراٹھی میں پالنے گیت ، بھو پائی وغیرہ لکھے گئے ، اُردو میں لوری نامے، جھولنا نا مے، سہاگن نامے جیسی نظمیں عورتوں کی اصلاح کے لیے لکھی گئی ہیں۔ اُردو میں اس ادبی ثقافت کو مراٹھی کی تقلید کہا جاسکتا ہے۔ ان منظومات میں اگر چہ ادبیت کی کمی ہے لیکن عوامی ادب میں ان کا مقام مسلم ہے۔


Post a Comment

0 Comments