کہتے ہیں جس کو نظیرؔ سُنیے ٹُک اُس کا بیان
|
منظو م تعارف نظیر ؔکی
زبانی
|
۱
|
یارب! ہے تیری ذات کو دونوں جہاں میں برتری
|
حمد
|
۲
|
اِس ارض و سما کے عرصے میں یہ، جتنا کَھچّم کَھچّا ہے
|
حمد (بہ طرزِ مناجات)
|
۳
|
پہلے اُس ختمِ رسالت سے کہو عشق اللہ
|
عشق اللہ
|
۴
|
ہیں دو جہاں کے سلطاں حضرت سلیم چشتی
|
حضرت سلیم چشتی
|
۵
|
ہیں کہتے نانک شاہ جنھیں، وہ پورے ہیں آگاہ گُرو
|
گرونانک شاہ
|
۶
|
ہے
یہ مجمع نکوسِرِشتی کا
|
حضرت سلیم چشتی کا عرس
|
۷
|
رنگ ہے، روپ ہے، جھمیلا ہے
|
بلدیو جی کا میلہ
|
۸
|
کیونکر کرے نہ اپنی نموداری شب برات
|
شب برات
|
۹
|
ہے عابدوں کو طاعت و تجرید کی خوشی
|
عید الفطر
|
۱۰
|
جب پھول کا سرسوں کے ہوا آکے کھِلتا
|
بسنت
|
۱۱
|
مل کر صنم سے اپنے ہنگامِ دل کُشائی
|
بسنت
|
۱۲
|
پھر آن کے عشرت کا مچا ڈھنگ زمیں پر
|
ہولی
|
۱۳
|
آجھمکے عیش و طرب کیا کیا، جب حُسن دکایا ہولی نے
|
ہولی
|
۱۴
|
جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں ، تب دیکھ بہاریں ہولی کی
|
ہولی کی بہاریں
|
۱۵
|
ہر اک مکاں مین جلا پھر دیا دوالی کا
|
دوالی
|
۱۶
|
چلی آتی ہے اب تو ہر کہیں بازار کی راکھی
|
راکھی
|
۱۷
|
کیا ابر کی گرمی میں گھڑی، پہر ہے اومس
|
اُمس
|
۱۸
|
ہیں اس ہوا میں کیا کیا برسات کی بہاریں
|
برسات کی بہاریں
|
۱۹
|
برسات کا جہاں میں لشکر پھسل پڑا
|
برسات اور پھسلن
|
۲۰
|
اہل سخن کو ہے گا اک بات کا تماشا
|
برسات کا تماشا
|
۲۱
|
ساقیا! موسم برسات ہے کیا روح فزا
|
موسمِ برسات
|
۲۲
|
چمن میں آج نسیمِ بہار آپہنچی
|
بہار
|
۲۳
|
جب ماہ اگن کا ڈھلتا ہو، تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
|
جاڑے کی بہاریں
|
۲۴
|
لاتی ہے جب اپنی یہہ شروعات اندھیری
|
اندھیری
|
۲۵
|
کیا دن تھے یارو وہ بھی، تھے جب کہ بھولے بھالے
|
طفلی
|
۲۶
|
کیا عیش کے رکھتی ہے سب آہنگ جوانی
|
جوانی
|
۲۷
|
کیا قہر ہے یارو، جسے آجائے بُڑھاپا
|
بُڑھاپا
|
۲۸
|
ہیں مرد اب وہی کہ جنھوں کا ہے فن درست
|
تندرستی
|
۲۹
|
جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی
|
مُفلسی
|
۳۰
|
ہے اب تو کچھ سخن کا مرے کارو بار بند
|
شہر آشوب
|
۳۱
|
کوڑی ہے کن کے پاس ،وہ اہل یقین ہیں
|
کوڑی نامہ
|
۳۲
|
پیسے ہی کا امیر کے دل میں خیال ہے
|
پیسا نامہ
|
۳۳
|
دُنیا میں کو ہے جو نہیں ہے فداے زر
|
تلاشِ زر
|
۳۴
|
نقش یاں جس کے میاں ہاتھ لگا پیسے کا
|
پیسا
|
۳۵
|
نقشا ہے عیاں سو طرب و رقص کی رائے کا
|
روپیا
|
۳۶
|
جب آدمی کے پیت میں آتی ہیں روٹیا
|
روٹیاں
|
۳۷
|
جب ملی روٹی ہمیں، سب نورِ حق روشن ہوئے
|
چپاتی نامہ
|
۳۸
|
کرتا ہے کوئی جو رو جفا پیٹ کےلیے
|
پیٹ کی فلاسفی
|
۳۹
|
کیا کہوں نقشا میں یارو، خلق کے احوال کا
|
آٹا دال
|
۴۰
|
دنیا
میں اپنا جی کوئی بہلا کے مر گیا
|
موت
|
۴۱
|
کی وصل میں دل برے، عنایات تو پھر کیا
|
عالمِ گُذراں
|
۴۲
|
گر شاہ، سر پہ رکھ کر افسر ہوا تو پھر کیا
|
فنا نامہ
|
۴۳
|
بٹ مارا جل کا آپہنچا، ٹک اُس کو دیکھ ڈرو بابا
|
فقیروں کی صدا
|
۴۴
|
ٹک حرص و ہو اکو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
|
بنجارا نامہ
|
۴۵
|
دُنیا میں کوئی خاص ، نہ کوئی عام رہے گا
|
رہے نام اللہ کا
|
۴۶
|
دُنیا میں کوئی شاد، کوئی دردناک ہے
|
فنا
|
۴۷
|
پڑھ علم کئی اِس دنیامیں گرکا مل،ذی ادر اک ہو ئے
|
فنا
|
۴۸
|
دُنیا کے بیچ یارو، سب زیست کا مزا ہے
|
موت
|
۴۹
|
جب یار نے اُٹھائی چھڑی، تب خبر ہوئی
|
خوابِ غفلت
|
۵۰
|
جہاں
ہے جب تلک، یاں سیکٹوں شادیّ و غم ہوں گے
|
تنبیہہُ
الغافلین
|
۵۱
|
دل خوشامد سے ہر اک شخص کا کیا راضی ہے
|
خوشامد
|
۵۲
|
زر کی جو محبت تجھے پڑ جاوے گی بابا
|
فقیروں کی صدا
|
۵۳
|
زردار ہے تو ہر گز مت مار اپنے من کو
|
ترغیبِ سخاوت و عشرت
|
۵۴
|
اے دل کہیں تو جا کے نہ اپنی زباں ہلائے
|
توکّل
|
۵۵
|
بھرے ہیں کیا کیا اُلٹ پلٹ کر کسی میں آکر یہ دم کسی کے
|
ترک و تجرید
|
۵۶
|
جو فقر میں پورے ہیں، وہ ہر حال میں خوش ہیں
|
تسلیم و رضا
|
۵۷
|
جتنے
تو دیکھتا ہے یہہ پھل، پھول، پات، بیل
|
توکّل و ترک و تجرید
|
۵۸
|
آہ کیا کہیے، رہی یاں جب تلک اپنی حیات
|
طلسم زندگی
|
۵۹
|
تنہا نہ اُسے اپنے دلِ تنگ میں پہنچان
|
عاشق نامہ
|
۶۰
|
دنیا میں بادشا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
|
آدمی نامہ
|
۶۱
|
کیا کیا جہاں میں اب ہیں ہماری سواریاں
|
سواریاں
|
۶۲
|
لے آہنے کو ہاتھ میں اور بار بار دیکھ
|
آئینہ
|
۶۳
|
دُنیا ہے اک نگارِ فریبندہ جلوہ گر
|
دُنیا
|
۶۴
|
یہہ جواہر خانہ دنیا جو ہے با آب وتاب
|
جواہر خانہ دُنیا
|
۶۵
|
کہاں یہہ دل نے مجھے دیکھ کر شبِ مہتاب
|
دُنیا کے عیش و عشرت
|
۶۶
|
ہے
دُنیا جس کا نانو میاں ، یہہ زور طرح کی بستی ہے
|
دُنیا
کی نیکی بدی
|
۶۷
|
یہ
پینٹھ عجب ہے دُنی کی ، اور کیا کیا جنس اکھٹی ہے
|
دُنیا
دھوکے مٹٹی ہے
|
۶۸
|
کیا
کیا فریب کہیے دُنیا کی فطرتوں کا
|
دُنیا
کے مکر و دغا
|
۶۹
|
دُنیا عجب بازار ہے، کچھ جنس یاں کی ساتھ لے
|
دُنیا دارُالمکافات ہے
|
۷۰
|
یہ جتنا خلق میں اب جا بہ جا تماشا ہے
|
دنیا بھی کیا تماشا ہے
|
۷۱
|
جہاں میں کیا کیا خرد کے اپنی ہر ایک بجاتا ہے شادیانے
|
اسرارِ قدرت
|
۷۲
|
خوں ریز کرشمہ، ناز ستم، غمزوں کی جُھکاوٹ ویسی ہے
|
پری کا سراپا
|
۷۳
|
صحن
چمن میں واہ وا، زور بچھیتھی چاندنی
|
چاندنی
رات
|
۷۴
|
رات
لگی تھی واہ واہ ، کیا ہی بہار کی جھڑی
|
جھڑی
|
۷۵
|
جب
سے تم کو لے گیا ہےیہ فلک اظلم کہیں
|
فراق
|
۷۶
|
مجھے
اے دوست تیرا ہجر اب ایس استاتا ہے
|
سوزِ
فراق
|
۷۷
|
نظر
آیا مجھے اک شوخ، ایسا نازنیں چنچل
|
طلسم
و صوال
|
۷۸
|
جہاں
میں نام تو سنتے تھے ہم جدائی کا
|
جُدائی
|
۷۹
|
اِدھر کو جس گھڑی اے ہم نشیں، وہ یار آیا
|
ملاقاتِ یار
|
۸۰
|
اپنے غم خواروں سے وئی آن ہنس لے، بول لے
|
حسن و جمال کو غنیمت سمجھو
|
۸۱
|
یارو، سنو ذرا، یہ عجب سیر ہے بڑی
|
خواب کا طلسم
|
۸۲
|
کورے برتن، ہیں کیاری گُلشن کی
|
کورا برتن
|
۸۳
|
کیا موسمِ گرمی میں نمودار ہے پنکھا
|
پنکھا
|
۸۴
|
میاں یہ کس پری کے ہاتھ پر عشق ہوئی مہندی
|
مہندی
|
۸۵
|
کچھ دل فریب ہاتھ وہ، کچھ دل رُبا حنا
|
حنا
|
۸۶
|
پہنچے نہ اُس کو ہر گز کا بل درے کی ککڑی
|
ککڑی
|
۸۷
|
تم نے جس دن سے صن کام میں ڈالا بالا
|
بالا
|
۸۸
|
کیوں
نہ جھمک کر کرے جلوہ کری پنکھیا
|
پنکھیا
|
۸۹
|
دیکھ تیرا یہہ جھمکتا ہوا اے جاں بٹوا
|
بٹوا
|
۹۰
|
یارو،
جو تاج گنچ یہاں آشکار ہے
|
تاج
گنج کا روضہ
|
۹۱
|
|
|
|
|
|
|
0 Comments