Index Of Zarb-e-kaleem|فہرست ضرب کلیم- علا مہ اقبال

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Index Of Zarb-e-kaleem|فہرست ضرب کلیم- علا مہ اقبال

فہرست  ضرب کلیم- علا مہ اقبال

Index Of  Zarb-e-kalim

دیئے گئی فہرست ضربِ کلیم کی نظم یاغزل کو پڑھنے کے لیے دیئے گئے  لنک پر کلک کریں

 

ا

اعلیحضرت نوّاب سر سیداحمداللہ خاں فرما نروائے بھوپال کی خدمت میں

زمانہ با اُمَمِ ایشیا چہ کردوکُنَد

۲

ناظرین سے

جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر

۳

تمہید

نہ دَیر میں نہ حرم  میں خودی کی بیداری

۴

صبح

یہ سحر جو کبھی فرداہے کبھی  ہے اِمروز

۵

لاَاِلٰہَ اِلاّاللہ

خودی کا سِرِّ نہاں لاَاِلٰہَ اِلاّاللہ

۶

تن بہ تقدیر

اسی قُرآں میں ہے  اب ترکِ جہاں کی تعلیم

۷

مِعراج

دے ولولۂ شوق جسے لذّتِ پرواز

۸

ایک فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام

تُو اپنی خودی اگر نہ کھوتا

۹

زمیں و آسماں

ممکن ہے کہ تُو جس کو سمجھتا ہے  بہاراں

۱۰

مسلمان کا زوال

اگر چہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات

۱۱

عِلم و عشق

علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوا نہ پن

۱۲

اِجتہاد

ہِند میں حکمت دِیں کو ئی  کہاں سے  سیکھے

۱۳

شُکروشکایت

میں بندۂ ناداں ہوں، مگر  شُکر ہے تیرا

۱۴

ذِکر وفِکر

یہ ہیں سب ایک ہی سالِک کی جستجو کے مقام

۱۵

مُلاّئے حرم

عجب  نہیں کہ خدا تک تری رسائی  ہو

۱۶

تقدیر

نااہل کو حاصل ہے بھی قُوّت و جبرت

۱۷

توحید

زندۂ قُوّت تھی  جہاں  میں یہی  تو حید کبھی

۱۸

عِلم اور دین

وہ علم اپنے بُتوں کا ہے آپ ابراہیم

۱۹

ہِندی مسلمان

غدّار وطن اس کو بتاتے  ہیں برَہمن

۲۰

آزادیِ شمشیر کے اعلان پر

سو چا بھی ہے  اے مردِمسلماں کبھی تُو نے

۲۱

جہاد

فتوٰی ہے شیخ کا یہ زمانہ  قلم کا ہے

۲۲

قُوّت اور دِین

اسکندر وچنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں

۲۳

فَقر ومُلوکِیّت

فقر جنگاہ میں بے ساز ویَراق آتا ہے

۲۴

اِسلام

رُوح اسلام کی ہے نُورِ خودی ،نارِخودی

۲۵

حیاتِ ابَدی

زندگانی ہے صدَف ،قطرۂ نیساں ہے خودی

۲۶

سُلطانی

کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے

۲۷

صُوفی سے

تر ی نگاہ میں ہے  مُعجزات کی دُنیا

۲۸

اَفرنگ زدہ

ترا وجود سراپا تجلّیِ افرنگ

۲۸

تصوّف

یہ حکمتِ مَلَکُو تی، یہ علم لاہُو تی

۲۹

ہِندی اِسلام

ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملّت

۳۰

غزل

دلِ مُردہ دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ

۳۱

دُنیا

مجھ کو بھی  نظر  آتی ہے یہ  بُوقلمونی

۳۲

نماز

بدل  کے بھیس پھر آتے  ہیں ہرزما نے میں

۳۳

وَحی

عقلِ بے مایہ  امامت کی سزا وار نہیں

۳۴

شکست

مجاہدانہ  حرارت رہی  نہ صُوفی  میں

۳۵

عقل و دِل

ہر خاکی و نُوری  پہ حکومت  ہے خرد کی

۳۶

مستیِ کردار

صُوفی کی طریقت میں فقط مستیِ احوال

۳۷

قبر

مرقد کا شبستاں بھی اُسے راس نہ آیا

۳۸

قلندر کی پہچان

کہتا ہے زمانے  سے یہ  درویشِ جواں مرد

۳۹

فلسفہ

افکار جوانوں کے خفی  ہوں کہ  جَلی ہوں

۴۰

مردانِ خُدا

وہی ہے  بندۂ حُر جس کی ضرب ہے  کاری

۴۱

کافر ومومن

کل ساحلِ دریا  پہ کہا  مجھ سے  خضر نے

۴۲

مہدِی برحق

سب اپنے  بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس

۴۳

مومن

ہو حلقۂ یاراں تو بر یشم  کی طرح نرم

۴۴

محمد علی باب

تھی خوب  حضورِ عُلمَا باب کی تقریر

۴۵

تقدیر

اے خدائے کُن فَکاں ! مجھ کو نہ  تھا آدم  سے بیر

۴۶

اے رُوحِ محمدؐ

شیرازہ ہُوا ملّتِ مرحوم کا اَبتر

۴۷

مَدنِیّتِ اسلام

بتاؤں تُجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے

۴۸

اِمامت

تُو نے پوچھی  ہے امامت  کی حقیقت مجھ سے

۴۹

فقرو راہبی

کچھ اور چیز ہے شاید تری  مسلمانی

۵۰

غزل

تیری متاعِ حیات علم و ہُنر کاسُرور

۵۱

تسلیم ورِضا

ہر شاخ سے یہ  نکتۂ پیچیدہ ہے پیدا

۵۲

نکتۂ توحید

بیاں میں نکتۂ تو حید آتو سکتا ہے

۵۳

اِلہام اور آزادی

ہو بندۂ آزاد اگر  صاحبِ اِلہام

۵۴

جان و تن

عقل مُدّت سے ہے اس پیچاک میں اُلجھی ہوئی

۵۵

لاہور وکراچی

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمانِ غیور

۵۶

نبوّت

مَیں نہ عارِف،نہ مُجدِّ د،نہ مُحدِّث،نہ فقِیہ

۵۷

آدم

طلسمِ بُود و عدم، جس  کانام ہے آدم

۵۸

مکّہ اور جنیوا

اس دَور میں اقوام کی صحبت بھی ہُوئی عام

۵۹

اے پیرِ حرم

اے پیرِحرم! رسم و رہِ خا نقہی چھوڑ

۶۰

مہدی

قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے  مو قوف

۶۱

مردِمسلمان

ہر لخطہ ہے مومن  کی نئی  شان، نئی آن

۶۲

پنجابی مسلمان

مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی  طبیعت

۶۳

آزادی

ہےکس کی یہ جُرأت کہ مسلمان کوٹو کے

۶۴

اِشاعتِ اسلام فر نگستان میں

ضمیر اس مدَنِیَّت کا دِیں سے ہے خالی

۶۵

لا واِلاّ

فضا ئے نُور میں کرتا نہ شاخ و برگ و بَر پیدا

۶۶

اُمَرائے  عرب سے

کرے یہ کافرِ ہندی  بھی جرأتِ گُفتار

۶۷

احکامِ الٰہی

پابندی تقدیر کہ پا بندِی احکام!

۶۸

موت

لَحَد میں بھی  یہی غیب و حضور رہتا ہے

۶۹

قُم بِاذنِ اللہ

جہاں اگر چہ دِگر گُوں ہے ،قُم بِاذنِ اللہ

۷۰

مقصود

نظر حیات پہ رکھتا ہے مردِ دانش مند

۷۱

زمانۂ حا ضر کا انسان

'عشق ناپید وخر دمی گزدش صُورتِ مار'

۷۲

اقوامِ مشرق

نظر آتے نہیں بے  پردہ  حقائق اُن کو

۷۳

آگاہی

نظر سِپِہر پہ رکھتا ہے جو ستارہ  شناس

۷۴

مصلحینِ مشرق

میں ہُوں نَو مِید  تیرے  سا قیانِ سامری فن سے

۷۵

مغربی تہذیب

فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ  کی تہذیب

۷۶

اَسرارِ پیدا

اُس قوم  کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی

۷۷

سُلطان ٹیپو کی وصیّت

تُو رَہ نَوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول

۷۸

غزل

نہ میں اَعجمی نہ ہندی، نہ عراقی و حجازی

۷۹

بیداری

جس بندۂ حق بیں کی خودی ہو گئی  بیدار

۸۰

خودی کی تربیت

خودی کی پرورش و تر بِیَت پہ ہے  موقوف

۸۱

آزادیِ فکر

آزادیِ اَفکار سے ہے  اُن کی  تباہی

۸۲

خودی کی  زندگی

خودی ہُو زندہ توہے  فقر بھی  شہنشاہی

۸۳

حکومت

ہےمُریدوں کو تو حق بات  گوارا لیکن

۸۴

ہِندی مکتب

اقبالؔ !یہاں نام نہ لے عِلمِ خودی کا

۸۵

تر بیت

زندگی  کچھ اَور شے ہے، علم  ہے کچھ اور شے

۸۶

خوب وزِشت

ستارگانِ فضا ہائے  نیلگوں کی طرح

۸۷

مرگِ خودی

خودی کی موت سے مغرب کا اندرُوں بے نور

۸۸

مہمانِ عزیز

پُر ہے اَفکار سے  ان مدرَسے والوں کا ضمیر

۸۹

عصرِ حاضر

پختہ افکار کہاں ڈھو نڈنے جائے  کوئی

۹۰

طالبِ علم

خُدا تجھے  کسی طُوفاں سے آشنا کر دے

۹۱

اِمتحان

کہا پہاڑ کی ندّی نے سنگ  ریزے  سے

۹۲

مَدرَسہ

عصرِ حاضر مَلَکَ الموت ہے تیرا ،جس  نے

۹۳

حکیم نطشہ

حریفِ نکتۂ توحید ہو سکا نہ حکیم

۹۴

اَسا تذہ

مقصد ہو اگر تر بَیتِ لعلِ بدخعاش

۹۵

غزل

مِلے گا منزلِ مقصود کا اُسی  کو سُراغ

۹۶

دِین و تعلیم

مجھ کو معلوم  ہیں پیِرانِ حرم کے  انداز

۹۷

جاوید سے

غا رت گرِ دِیں  ہے یہ ز ما نہ

۹۸

مردِ فرنگ

ہزار بار حکیموں نے اس کو سُلجھایا

۹۹

ایک سوال

کوئی پُو چھے  حکیمِ یورپ سے

۱۰۰

پردہ

بہت رنگ  بدلے  سِپِہرِ برِیں نے

۱۰۱

خَلوَت

رُسوا کِیا اس دُور کو جَلوَت کی ہَوس نے

۱۰۲

عورت

وجودِ زن سے  ہے  تصویرِ کا ئنات میں رنگ

۱۰۳

آزادیِ نسواں

اس بحث کا کچھ فیصلہ مَیں  کر نہیں سکتا

۱۰۴

عورت کی حفاظت

 اِک زندہ حقیقت مِرے سینے میں ہے مستور

۱۰۵

عورت اور تعلیم

تہذِ یبِ فرنگی  ہے اگر  مرگِ اُمومتٍ

۱۰۶

عورت

جو ہرِ  مرد عیاں ہو تا ہے بے  منّتِ غیر

۱۰۷

دِین وہُنر

سرودوشعر و سیاست ،کتا ب و دِین  و ہُنر

۱۰۸

تخلیق

جہانِ  تازہ  کی  افکارِ  تازہ  سے ہے  نمود

۱۰۹

جنوں

زُجاج گر کی دُکاں  شاعری و مُلّا ئی

۱۱۰

اپنے شعر سے

ہے گِلہ  مجھ کو  تری  لذّتِ  پیدائی  کا

۱۱۱

پیرس کی مسجد

مِری  نگا ہ  کمالِ ہُنر  کو کیا  دیکھے

۱۱۲

اَدَبیات

عشق اب پیروی ِ عقلِ خداداد کرے

۱۱۳

نگاہ

بہار و قا فلۂ لالہ  ہائے  صحرائی

۱۱۴

مسجِدقُوّتُ الا سلام

ہے مِرے  سِینۂ بے نُور  میں اب  کیا  باقی

۱۱۵

تِیاتَر

تری  خو دی سے ہے روشن  ترا حریمِ وجود

۱۱۶

شعاعِ اُمِّید

سُورج  نے دیا  اپنی شعاعوں  کو یہ  پیغام

۱۱۷

اُمّید

مقا بلہ تو زمانے کا خوب کرتاہُوں

۱۱۸

نگاہِ شوق

یہ کا ئنات چُھپا تی  نہیں ضمیر  اپنا

۱۱۹

اہلِ ہُنر سے

مِہر ومہ و مُشتری ،چند نفَس کا فروغ

۱۲۰

غزل

دریا میں موتی ،اے موجِ بےباک

۱۲۱

وُجود

اے کہ  ہے زیرِ  فلک  مثلِ شرر تیری نمود

۱۲۲

سُرود

آیا کہا ں سے  نالۂ نَے  میں  سُرورِ مے

۱۲۳

نسیم و شبنم

انجم کی  فضا  تک نہ ہُو ئی  میری  رسائی

۱۲۴

اِہرامِ مصر

اس دشتِ جگر تاب  کی خا مو ش فضا میں

۱۲۵

مخلو قاتِ ہُنر

ہےیہ  فِردوسِ نظر  اہلِ ہُنر کی تعمیر

۱۲۶

اقبالؔ

فِردوس میں رُومیؔ سے یہ  کہتا تھا سنائی ؔ

۱۲۷

فنونِ لطیفہ

اے اہلِ  نظر  ذوقِ  نظر خوب ہے لیکن

۱۲۸

صُبحِ چمن

شاید تُو سمجھتی تھی وطن دُور ہے میرا

۱۲۹

خا قاؔنی

وہ صاحبِ 'تحفتہ العراقَین'

۱۳۰

رُومی

غلَط نِگر ہے تری  چشمِ نیم  باز اب تک

۱۳۱

جدّت

دیکھے تُو زمانے  کو اگر اپنی نظرسے

۱۳۲

مِرزا بیدلؔ

حقیقت یا مِری چشمِ  غلط  بیں  کا  فساد

۱۳۳

جلال و جمال

مرِے  لیے ہے فقط زورِ حیدری کافی

۱۳۴

مُصوّر

کس  درجہ یہاں عام ہُو ئی مرگِ تخیل

۱۳۵

سرودِ حلال

کھل تو جاتا ہے مُغَنّی  کے بم  وزیر سے دل

۱۳۶

سرودِ حرام

نہ میرے  ذکر میں ہے  صُو فیوں کا سوز و سُرور

۱۳۷

فوّرہ

یہ آبجو  کی  روانی ، یہ  ہمکناری ِ خاک

۱۳۸

شاعر

یہ مشرق کے نَیستاں میں ہے محتاجِ نفَس  نَے 

۱۳۹

شعرِ عجم

ہے شعرِ عجم  گر چہ طرَب ناک و دل آویز

۱۴۰

ہُنرورانِ ہند

عشق و مستی  کا جنازہ ہے تخیل ان کا

۱۴۱

مردِ بزرگ

اُس کی نفرت  بھی عمیق ،اُس کی محبت بھی عمیق

۱۴۲

عالَمِ نَو

زندہ دل سے نہیں  پو شیدہ  ضمیرِ تقدیر

۱۴۳

ایجادِ معا نی

ہر چند کہ ایجادِ معا نی ہے  خدادا

۱۴۴

موسیقی

وہ نغمہ سردِی خونِ  غزل  سرا کی  دلیل

۱۴۵

ذوقِ نظر

خودی  بلند تھی اُس خوں گرفتہ  چینی  کی

۱۴۶

شعر

مَیں  شعر کے اَسرار سےمَحرم نہیں لیکن

۱۴۷

رقص و موسیقی

شعر سے روشن  ہے جاںِ جبرئیل و اَہر من

۱۴۸

ضبط

طریقِ اہلِ دُنیا ہے  گلہ  شکوہ زما نے کا

۱۴۹

رقص

چھوڑ یورپ  کےلیے رقصِ بدن  کےخم  و پیچ

۱۵۰

اِشتراکِیت

قو موں کی روِش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم

۱۵۱

کارل مارکس کی آواز

یہ علم و حکمت کی مُہر ہ بازی ،یہ بحث و تکرار کی  نمائش

۱۵۲

اِنقلاب

نہ ایشیا  میں  نہ یورپ  میں سوزو سازِ حیات

۱۵۴

خوشامد

مَیں کارِ جہاں سے نہیں  آگاہ ، ولیکن

۱۵۵

مناصِب

ہُوا ہے  بندۂ  مومن فسو نیِ اَفرنگ

۱۵۶

یورپ اور ہیود

یہ  عیشِ فراواں، یہ حکومت ،یہ  تجارت

۱۵۷

نفسیاتِ غلامی

شاعر بھی ہیں پیدا ،عُلما   بھی، حُکما بھی

۱۵۸

بلشویک رُوس

روشِ قضا ئے  الٰہی  کی ہے  عجیب و غریب

۱۵۹

آج اور کل

وہ کل کے غم وعیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا

۱۶۰

مشرق

مِری نوا سے گریباں لالہ چاک ہُوا

۱۶۱

سیاستِ افرنگ

تری  حریف  ہے یارب سیاستِ افرنگ

۱۶۲

خواجگی

دَورِ حاضر ہے حقیقت  میں وہی  عہدِ قدیم

۱۶۳

غلاموں کے لیے

حکمتِ مشرق و مغرب نے سِکھایا ہے مجھے

۱۶۴

اہلِ مصر سے

خود ابو الہول نے یہ  نکتہ سِکھایا مجھ کو

۱۶۵

ابی سینیا

یورپ کے  گرگسوں کو نہیں ہے ابھی  خبر

۱۶۶

اَبلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام

لاکر بَر ہمنوں کو سیا ست کے  پیچ میں

۱۶۷

جمِعیّتِ اقوامِ مشرق

پا نی بھی مسخر ہے، ہوا بھی ہے  مسخر

۱۶۸

سُلطانیِ جاوید

غوّاص تو فطرت نے بنا یا ہے مجھے  بھی

۱۶۹

 جمُہوریت

اس راز کو اک مردِ فر نگی نے کِیا فاش

۱۷۰

مسو لینی

کیا زما نے سے نرا لا  ہت مسو لینی  کا جُرم !

۱۷۱

گِلہ

معلوم کسے ہند  کی تقدیر  کہ اب  تک

۱۷۲

اِنتداب

کہاں فر شتۂ تہذیب کی ضرورت ہے

۱۷۳

دامِ تہذیب

اقبالؔ کو شک اس کی شرافت  میں نہیں ہے

۱۷۴

نصیحت

اک  کردِ فر نگی نے کہااپنے پِسَر سے

۱۷۵

ایک بحری قزّاق اور سکندر

صِلہ تیرا تری زنجیر یا شمشیر ہے میری

۱۷۶

جمِعیّتِ اقوام

بیچاری کئی  روز سے دَم توڑرہی ہے

۱۷۷

شام و فلسطین

رِندانِ فرانسیس کا  میخا نہ سلامت

۱۷۸

سیاسی پیشوا

اُمید کیا ہے سیا ست  کے پیشواؤں سے

۱۷۹

نفسیاتِ غلامی

سخت باریک  ہیں اَمراضِ اُمم کے اسباب

۱۸۰

غلاموں کی نماز

کہا مجا ہدِ تُرکی نے مجھ سے بعدِ نماز

۱۸۱

فلسطینی عر ب سے

زما نہ اب بھی نہیں جس کےسوز سے فارغ

۱۸۲

مشرق ومغرب

یہاں مَرض کا سبب ہے غلامی و تقلید

۱۸۳

نفسیاتِ حاکمی

یہ  مِہر ہے   بے مہریِ  صیّاد کاپردہ

۱۸۴

محراب گُل افغان کے افکار

میرے گُہستاں ! تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں

 

 


Post a Comment

0 Comments